کورونا وبا اور لاک ڈاون کے سبب مخالف این آر سی تحریک کی شدت میں کمی واقع ہوئی تھی تاہم اس میں ایک بار پھر شدت پیدا ہورہی ہے۔ ریاست کے کئی اضلاع میں کووڈ ضوابط پر عمل کرتے ہوئے این آر سی مخالف مظاہرے کئے جارہے ہیں۔
این آر سی مخالف تحریک میں محدود تعداد میں مظاہرین شرکت کررہے ہیں۔ وہیں دوسری جانب لاک ڈاون کی پابندیوں کے چلتے متعدد افراد آن لائین طریقہ سے احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں۔
آل بنگال اینٹی این آر سی سٹیزن کمیٹی کی قیادت میں ریاستی سطح پر تحریک جاری ہے۔کمیٹی کے نائب صدر زبیر ربانی نے ای ٹی وی بھارت کو تحریک سے متعلق بتایا کہ این آر سی مخالف تحریک کی شدت میں لاک ڈاؤن کے دوران کمی آئی تھی لیکن اب تحریک میں دوبارہ تیزی آگئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ 28 مئی کو مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ افغانستان، پاکسستان اور بنگلہ دیش کے 6 مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی جس میں ہندو، سکھ، پارسی، بدھ، جین اور عیسائی شامل ہیں۔ مسلمانوں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بی جے پی کے رکن پارلیمان اور مرکزی وزیر نشیت پرمانک کی شہریت پر سوال
انہوں نے کہا کہ مذہب کے نام پر شہریت دینے کے عمل کو غلط قرار دیتے ہوئے وزارت داخلہ کو خط لکھ کر احتجاج کیا گیا۔ اس کے بعد ہم نے ریاستی سطح پر تحریک کا آغاز کیا۔ گذشتہ 12 تا 18 جون کے دوران ریاست کے تمام اضلاع میں احتجاج کیا گیا۔ اس کے بعد دوبارہ 11 تا 13 جولائی کو احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور اس سلسلہ میں آن لائن احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے دفتر میں احتجاج کو درج کرانے کےلیے دستخطی مہم بھی چلائی جارہی ہے۔ انہوں نے مرکزی حکومت پر چور دروازے سے سی اے اے کو نافذ کرنے کی سازش کا الزام عائد کیا۔