آنند شرما نے اپنے سابقہ بیان پر صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا بیان پارٹی کی بھلائی کےلیے تھا‘۔ انہوں نے پارٹی سے بغاوت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’کس کے خلاف بغاوت؟ ہمیں سونیا گاندھی کی قیات پر یقین ہے اور ہم ان کی تعریف بھی کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آج تک ہم نے قیادت کے بارے میں ایک لفظ بھی کچھ نہیں کہا‘۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی بات چیت میں تہذیب کا لحاظ رکھنا چاہئے‘۔
قبل ازیں آنند شرما نے عباس صدیقی کی پارٹی سے کانگریس کے اتحاد پر سوال اٹھائے تھے اور اس اتحاد کو پارٹی کے لیے نقصاندہ قرار دیا تھا۔ اسے پارٹی کے بنیادی نظریہ کے منافی قرار دیا تھا۔
ادھیررنجن چودھری نے آنند شرما کے بیان پر سخت اعتراض جتایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’بیان بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کےلیے دیا گیا‘۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’آنند شرما کانگریس میں رہتے ہوئے کسی اور پارٹی کی زبان بول رہے ہیں‘۔
ادھیررنجن چودھری کے بیان کا جواب دیتے ہوئے آنند شرما نے کہا کہ ’میں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا جبکہ میری ساری زندگی کانگریس کےلیے وقف ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’میں تہذیب کے دائرہ میں سیاسی بیان بازی کی قدر کرتا ہوں‘۔ انہوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بی جے پی کے خلاف لڑنے کا میں ایک ریکارڈ رکھتا ہوں، مجھے کچھ واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر کوئی میرے بارے میں بخوبی جانتا ہے‘۔
آنند شرما نے بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ’زعفرانی پارٹی نے ہمیشہ فرقہ واریت کو فروغ دیا ہے‘۔