مغربی بنگال کے بھاٹ پاڑہ حلقے میں لوک سبھا انتخابات کے دوران سے ہی کانکی نارہ میں تشدد جاری ہے۔ کشیدگی کی وجہ سے عام زندگی تھم سی گئی ہے۔ ایک ماہ کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حالات میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ کانکی نارہ بنیادی طور پر مزدوروں کا علاقہ ہے۔ یہاں کی 90 فیصد آبادی کا انحصار جوٹ ملوں پر ہے۔ جوٹ مل ہی ان کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔ ان ہی ملوں میں وہ مزدوری کرتے ہیں اور اپنے اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھرتے ہیں۔
ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حالات میں بہتری نہیں آئی جس کے سبب اب عوام کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جوٹ مل کے مزدور گزشتہ ایک ماہ سے کام پر نہیں جا پا رہے ہیں۔ دکانیں بند ہیں اور چھوٹے کاروبار کرنے والے اپنا مال فروخت کرنے سے قاصر ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند ہے اور مسافر غائب ہیں۔
اس طرح کے حالات میں گزشتہ ایک ماہ سے دکانیں بھی نہیں کھل رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد سے پریشان عوام کو اب اب پیٹ کی مار بھی جھیلنی پڑ رہی ہے۔ بازار سنسان ہیں، سبزی مارکیٹ میں کوئی خریدار نہیں ہے۔
ایسے حالات میں ای ٹی وی بھارت نے کانکی نارہ میں مالی بحران کے شکار اور ایک ایک پائی کے محتاج لوگوں سے ان کی پریشانیوں پر بات چیت کی۔
کانکی نارہ کے ریلائنس جوٹ مل کے مزدور عشرت علی نے بتایا کہ 'مل میں تقریباً پانچ ہزار مزدور کام کرتے ہیں۔ جن میں دو ہزار مسلمان ہیں لیکن گزشتہ ایک ماہ سے ہم لوگ کام پر نہیں جا رہے ہیں کیونکہ مل ہندو اکثریت والے علاقے میں ہے اور مسلمانوں کو ڈیوٹی جاتے وقت زدوکوب کیا جا رہا ہے اسی لئے ہم خوف میں ہیں، سہمے ہوئے ہیں اس کیے کام پر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے'۔
اس فرقہ وارانہ ماحول میں کہیں کہیں خوش آئند تصاویر بھی نظر آئیں۔ نیا بازار میں ہندو مسلم دونوں ایک ساتھ بیٹھے نطر آئے۔ بھولا شاؤ اور محمد اقبال اپنی گلی میں ساتھ بیٹھے تھے۔ دونوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ جیسے پہلے مل جل کر رہتے تھے اسی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں کشیدہ حالات سے پریشانی ہوتی ہے۔ آخر ہم یہیں کے تو ہیں!۔