ریاست مغربی بنگال کی سیاست میں دھماکہ خیز انٹری کا اعلان کرچکی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کو بنگال میں پہلی جیت سے زیادہ بنگال زبان کے ماہر سیاسی رہنما کی تلاش ہے۔
اے آئی ایم آئی ایم کو بنگال کی سیاست میں مضبوط اور فاتحانہ شروعات سے پہلے زبان کی کشمکش کا شکار ہوگئی ہے۔
اسدالدین اویسی کی سیاسی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو ریاست میں پاؤں مضبوط کرنے کے لیے بنگلہ زبان جاننے والے مسلم رہنماوں کی تلاش ہے تاکہ اقیلتی اکثریتی اضلاع کے لوگوں تک پہنچا جاسکے۔
مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 30 فیصد ہے جس میں اردو بولنے والے مسلمانوں کی آبادی ساڑھے چھ فیصد ہے جبکہ بنگلہ زبان بولنے والوں کی تعداد ساڑھے 23 فیصد ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی پریشانی یہاں اردو اور بنگالی رہنماوں سے شروع ہوتی ہے۔
اسدالدین کی پارٹی کو اردو بولنے رہنما تو آسانی سے مل گئے لیکن بنگالی زبان بولنے والے رہنماوں کی تلاش جاری ہے۔
آے آئی ایم آئی ایم زبانوں کے کھیل میں پھنس کر رہ گئی ہے، اسمبلی انتخابات کے پانچ مہینہ باقی ہے اور مختصر مدت میں عوام میں مقبول اور تجربہ کار سیاسی رہنما کا ملنا تقریباً ناممکن ہے۔
کولکاتا میں اے آئی ایم آئی ایم کے ایک رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا ہے کہ پارٹی کے کنوینر انور پاشا سمیت دوسرے رہنماوں کے پارٹی چھوڑ کر ترنمول کانگریس میں شامل ہونے سے پریشانی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کولکاتا اور اس کے اطراف میں پارٹی کو کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن اضلاع میں زبان کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔
جنوبی 24 پرگنہ، مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناج پور، جنوبی دیناج پور، شمالی 24پرگنہ، ندیا سمیت دیگر مسلم اکثریتی اضلاع میں اے آئی ایم آئی ایم کے بنگلہ زبان جاننے والے رہنما نہیں ہیں۔
اے آئی ایم آئی ایم اس کی وجہ سے بنگلہ بولنے والے مسلمانوں تک پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔
بنگال میں وہ پارٹی کامیاب ہو گی جس کے پاس دونوں زبان کو جاننے والے رہنما ہیں۔
اس معاملے میں حکمراں جماعت ترنمول کانگریس، کانگریس، بائیں محاذ اور اس کی 18 حلیف جماعتوں کو سبقت حاصل ہے۔