ظفریاب جیلانی نے کہا کہ 'ایسے وقت ثالثی کی بات کرنا نامناسب بات ہوگی کیونکہ 1992 کے بعد سے بات چیت کا عمل مسلسل جاری رہا اور اس دوران مسلم فریق سے لگاتار اس بات کا مطالبہ ہوتا رہا کہ رام مندر کروڑوں ہندوؤں کی آستھا کا مسئلہ ہے جبکہ مسلمانوں کو بابری مسجد پر اپنے دعوے کو ترک کرنے کی بات بھی کہی جاتی رہی ہے، اس یکطرفہ مطالبہ کی وجہ سے بات چیت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'جہاں تک مولانا توقیر رضا خان بریلوی کی بات ہے تو وہ ان کا نجی مسئلہ ہے اور اب سپریم کورٹ کسی بھی حال میں سماعت کو روکنے کے موقف میں نہیں ہے'۔
ظفریاب جیلانی نے کہا کہ 'اب بات چیت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا لیکن جو جج صاحبان سماعت کر رہے ہیں ان کے ذہن پر اس طرح کی باتوں کا اثر پڑ سکتا ہے'۔
انہوں نے واضح کردیا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کسی بھی صورت میں بابری مسجد پر اپنے دعوے کو برقرار رکھے گا اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ہمارے لیے قابل قبول ہوگا'۔
واضح رہے کہ کل مولانا توقیر رضا خاں بریلوی نے کہا تھا کہ بابری مسجد مسئلہ آپسی بات چیت کے ذریعہ حل کرنا مناسب ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ کے ذریعہ کسی بھی فریق کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد ملک میں فسادات پھوٹ پڑ سکتے ہیں۔