للو نے بیان میں کہا کہ جعل سازوں کے ذریعہ بھولے بھالے لڑکوں سے سکریٹریٹ میں نوکری دلائے جانے کے نام پر لاکھوں روپئے کے ٹھگی کے واقعات سرخیوں میں آئے ہیں۔پیسے وصولی کا کھیل سکریٹریٹ، اندرا بھون میں بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ یہ اس بات مظہر ہے کہ سابق میں محکمہ مویشی میں ہونے والے گھپلوں سے نہ تو حکومت نے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ ہی حکومتی ملازمین کے اندر حکومت کا کوئی خوف ہے۔ کھلے عام نوکری کے نام پر ٹھگی کے معاملے لگاتار سامنے آرہے ہیں اور حکومت خود کی جھوٹی تعریف میں محہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم آواس اسکیم کے تحت آواس دلانے کے نام پر بھی جعل سازی ہوئی ہے۔ یہ معاملہ باقاعدہ ایک کمپنی بنا کر ایک گروپ کے ذریعہ انجام دیا جارہا ہے۔ سوال یہ اٹھا ہے کہ ریاست کے وزیر اعلی کس طرح کے مجرمین اور کس طرح کے جرائم پر کنٹرول حاصل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس اور کسان آمنے سامنے، سڑکیں بلاک اور عوام جام میں پھنسے
ریاستی کانگریس صدر نے کہا کہ ابھی کورونا وبا کے دوران ریاستی حکومت کے ذریعہ خریدے گئے پی پی ای کٹ میں گھپلہ، محکمہ بجلی میں پی ایف گھپلہ، اسمارٹ میٹروں کی خریداری میں جعل سازی، محکمہ پنچایتی راج میں پر فارمنس گرانٹ گھپلہ، پرائمری اسکولوں کے بچوں کے لئے ڈریس اور کتابوں کی خریداری میں گھپلہ وغیرہ یوگی حکومت کی بدعنوانی اور جرائم کے خلاف جاری زیرو ٹالیرنس کے دعوے کی پول کھولتی ہے۔
للو نے کہا کہ اترپردیش میں گھپلوں کی حکومت چل رہی ہے۔ نئے نئے گھپلے اجاگر ہورہے ہیں اور گھپلوں کو ادارہ جاتی شکل دی جارہی ہے۔ حکومت اس پر پابندی عائد کرنے کے بجائے زبانی لفاظی کرنے اور بدعنوانی پر زیرو ٹالیرنس کا نعرہ گڑھنے میں مشغول ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نعرہ دینے کے بجائے بدعنوان اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت اقدام کرے جس سے ریاست کی متاثرہ عوام کو راحت ملے۔