علی گڑھ: دنیا میں انسان کے لیے اس کی جان سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ باوجود اس کے دور جدید میں خودکشی کا بڑھتا رجحان انتہائی تشویشناک ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہر سال 'خود کشی سے بچاؤ کا عالمی دن' 10 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد دنیا بھر میں ہورہے خودکشیوں کے واقعات کو روکنا ہے۔ خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن کے موقع پر عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے کلچرل ایجوکیشن سنٹر (سی ای سی) کے تحت یونیورسٹی فلم کلب (یو ایف سی) نے خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن پر شعبۂ نفسیات کی سائیکلوجیکل سوسائٹی کے اشتراک سے ایک پینل ڈسکشن اور ایک فلم کی اسکریننگ کا اہتمام کیا جس میں پروفیسر اسماء پروین (چیئرپرسن، شعبۂ نفسیات)، ڈاکٹر محمد ریاض الدین (شعبۂ سائیکیاٹری، جے این ایم سی)، پروفیسر عائشہ منیرہ رشید (شعبۂ انگریزی) اور ڈاکٹر سارہ جاوید (شعبۂ نفسیات) نے کینیڈی آڈیٹوریم میں پینل ڈسکشن میں حصہ لیا۔
انھوں نے خودکشی کے مختلف پہلوؤں اور اس کی روک تھام پر تبادلۂ خیال کیا اور کہا کہ خودکشی ایک بڑا عوامی مسئلہ ہے اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو خود کشی کے رجحانات کے خلاف بیدار کرنے کے لیے ہر سطح پر کوششیں کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے دماغی اور جذباتی دباؤ سے گزرنے والے نوجوانوں کی کاؤنسلنگ اور ہم عمر افراد کی مدد سے ان کی نگرانی پر زور دیا۔ پروفیسر اسماء پروین نے دماغی صحت اور خودکشی کے درمیان تعلق کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ سماجی عوامل اکثر اس فعل کے ارتکاب کی نمایاں وجہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض الدین نے حیاتیاتی عوامل پر زور دیا اور خودکشی کے طبی پہلو اور متعلقہ شخص میں انتباہی علامات کی نشو ونما پر گفتگو کی۔
ڈاکٹر سارہ جاوید نے خودکشی کے اسباب اور حالات پر گفتگو کی۔ پروفیسر عائشہ منیرہ رشید نے ادب میں خودکشی کی نمائندگی اور خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے جیسے حساس موضوعات سے نمٹنے میں فلم سازوں کی ذمہ داری پر بات کی۔ کلب کے سکریٹری احمد مدثر نے پینل مباحثہ میں شامل مہمانوں کو یادگاری نشانات پیش کیے۔ کلب کی رکن شیزہ شعیب نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ بعد میں نتیش تیواری کی ایک فلم ’چھچھورے‘ کی نمائش کی گئی، جو خودکشی کی روک تھام اور مثبت دماغی صحت کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔