رضائی کے کاروبار سے نہ صرف شہر کے کاروباری وابستہ ہوتے ہیں بلکہ گاؤں دیہات کے کاریگر اور کسان بھی شامل ہوتے ہیں لیکن اب یہ کاروبار متعدد وجوہات کے سبب کافی متاثر ہے جس کی وجہ سے سبھی کو مشکلات کا سامنا ہے اور بازار دیگر ملکوں کے درآمد شدہ کمبل آنے سے مقامی رضائی کی مانگ میں کافی کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے آئندہ دنوں میں کپاس کی کھیتی کرنے والے کسانوں کو بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔
مشکلات کا عالم یہ ہے کہ اترپردیش کے شہر بنارس کے سگرا علاقے کے رضائی کے کاروباری اکبر علی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'کاروبار نہ چلنے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اب حالات اتنے بدترین ہوچکے ہیں کہ انہیں دو وقت کے کھانے کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
اکبر علی نے مزید بتایا کہ اس سے قبل ہر برس سردیوں کے موسم میں رضائی کا کاروبار عروج پر ہوتا تھا لیکن رواں برس کورونا وائرس کا سخت اثر ہے اس کی وجہ سے بازار میں رضائی کی مانگ اور اسے بنانے والے کاریگروں کی بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ برسوں میں رضائی کا کاروبار رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا نعرہ' ووکل فار لوکل' پر اگر عوام توجہ دیتی ہے تو اس کاروبار کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ ورنہ بھارت کی قدیم روایتی رضائی کا استعمال اب ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔