بارہ برس سے بارہ بنکی کے وکیل ردولی کو بارہ بنکی میں شامل کرنے کے لئے تحریک چلا رہے ہیں،لیکن کوئی فائدہ نکل نہیں رہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوبارہ ردولی بارہ بنکی میں واپس ہو پائے گی۔
ہر ماہ کی سات تاریخ کو وکلا ردولی کی بارہ بنکی میں واپسی کے لئے احتجاج کرتے ہیں اور ہر دفعہ انتظامیہ کو میمورنڈم دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ 31 اکتوبر سنہ 2007 سے اس وقت شروع ہوا تھا، جب دوران اقتدار مایاوتی نے ردولی کو بارہ بنکی سے الگ کرکے فیض آباد میں شامل کر دیا تھا، لیکن آج تک کچھ نہیں ہوا۔ خاص بات یہ ہے کہ احتجاج کرنے والے بھی نہیں ہارے۔
ردولی تحصیل سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے ردولی کبھی فیض آباد تو کبھی بارہ بنکی میں آتی جاتی رہی ہے۔ سنہ 1997 میں مایاوتی نے ہی اپنے دوران اقتدار اسے فیض آباد میں شامل کر دیا تھا، لیکن 2004 میں اسے ملائم سنگھ یادو نے اسے بارہ بنکی میں کیا، 2007 میں اسے پھر مایاوتی نے فیض آباد میں شامل کر دیا۔
2012 میں ایس پی حکومت میں امید تھی کہ یہ علاقہ واپس ہوگی لیکن نہیں ہوا۔ اب میمورنڈم دئے جا رہے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ ردولی کا فیض آباد میں ہونے سے عوام کا کافی نقصان ہوا ہے، لوگوں کو کافی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ردولی اودھ کی ثقافت توجہ کا مرکز رہا ہے، اس لئے دعویٰ یہ بھی ہے کہ ردولی کے لوگ فیض آباد کے ماحول اور ثقافت میں بھی ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے۔ اس لیے ان کا مطالبہ ہے کہ ردولی بارہ بنکی میں ہی شامل ہونی چاہیے۔
ردولی کے لئے تحریک جاری ہے، وکلاء کے ساتھ دوسری تنظیم بھی اس سمت میں کوشاں ہیں۔ لیکن دیکھنا دلچسپ ہے کہ کب اور کیسے ردولی بارہ بنکی میں واپس آتی ہے؟