لکھنؤ شہر فنون لطیفہ اور فن نقّاشی میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ نوابین اودھ کا دستر خوان دیدۂ زیب کے ساتھ فراخ ہوتا تھا۔ لکھنؤ کے حکمران فنون لطیفہ و ادیبوں کے قدردان بھی تھے، یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ کے ماہر باورچی، نقّاش، تعزیہ داری، دردوزی، لکھنؤی چکن کے کپڑے کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہے۔
اس کے علاوہ یہاں پیتل اور تانبے کے برتنوں پر نادر و نایاب نقاشی نوابی دور سے ابھی تک زندہ ہے جسے یہاں کی عوام لکھنؤی تہذیب کا حصہ شمار کرتی ہے۔
غرض کہ لکھنؤی تہذیب میں جو کشش ہے وہ دنیا کے کسی اور شہر میں نہیں ہے۔
اس لیے شاید کسی شاعر نے کہا ہے کہ
اک لُطف خاص دل کو تیری آرزو میں ہے
اللہ جانے کتنی کشش لکھنؤ میں ہے
کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ کے نواب جو برتن استعمال کرتے تھے وہ فن نقاشی کا اعلیٰ شاہکار ہوا کرتا تھا جس کو یہاں کی عوام نے بھی خوب پسند کیا اور بیشتر مسلم گھروں میں نقش شدہ برتن موجود ہوتے ہیں۔
لکھنؤ میں فنِ نقاشی کی روایت تقریباً ڈھائی سو سال قبل شروع ہوئی تھی اور اسی زمانے سے طشتری، سلپی، پاندان، خاصدان، اُگلدان اور وضو کے لوٹے پر خاص قسم کی نقاشی ہوا کرتی تھی۔
نوابوں کے بعد بھی اس نوعیت کے برتن لکھنؤی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گئے اور آج بھی یہاں کے لوگ نقش شدہ برتنوں کو خوب پسند کرتے ہیں۔
پُرانے لکھنؤ کے یحییٰ گنج کی برتن والی گلی میں آج بھی نقاشی کے کاریگر موجود ہیں جن کی پانچ نسلیں اسی فن سے وابستہ ہیں۔
لکھنؤی نقاشی نہ صرف تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے بلکہ گنگا جمنی تہذیب، روا داری اور آپسی اتحاد کی زندہ مثال ہے۔
یہ کاریگر اگرچہ ہندو مذہب کے پیروکار ہیں لیکن انہیں حضرت امام حسینؓ سے اس قدر اُلفت و عقیدت ہے کہ اہل بیت کا نام نہ صرف خوبصورت انداز میں نقش کرتے ہیں بلکہ روانی کے ساتھ عربی رسم الخط پڑھ بھی لیتے ہیں اور یوم عاشورہ کو زیارت کے لیے کربلا بھی جاتے ہیں۔ ماہ محرم کے عَلَم و دیگر مذہبی رسومات میں استعمال ہونے والی اشیاء پر بھی نقاشی کرتے ہیں۔
ان سب کے باوجود برسوں قدیم فن آج اپنے وجود کی لڑائی لڑرہا ہے۔ نقاشی کے کاریگر رام کمار بتاتے ہیں کہ چند برس قبل اس گلی میں 16 کاریگر ہوا کرتے تھے لیکن کام اور آمدنی کم ہونے کی وجہ سے 8 کاریگر دیگر کاروبار سے منسلک ہوگئے اور اب رام کمار بھی کسی دوسرے کاروبار کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
رام کمار کا ماننا ہے کے آئندہ دس برس میں یہ فن دم توڑ دے گا کیوں کہ نئی نسل اس جانب دلچسپی نہیں لے رہی ہے اور پُرانے کاریگر دوسرا کام اپنارہے ہیں۔
اس کے علاوہ شیام کُمار نامی تاجر بتاتے ہیں کہ اس کام میں اگرچہ زیادہ آمدنی نہیں لیکن اہل لکھنؤ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور عَلَم پر جو نقاشی کرتے ہیں اسے چومتے ہیں۔
شیام کمار نہ عربی پڑھے ہیں اور نہ ہی اردو۔ اس کے باوجود اہل بیت اطہار کا نام تجربہ کے بنیاد پر فراٹے سے پڑھتے ہیں۔ ان کے مطابق لکھنؤ کی نقاشی کا منفرد مقام ہے جو دنیا میں کسی اور جگہ نہیں بن سکتا۔