آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے اتر پردیش اسمبلی انتخابات Uttar Pradesh Assembly Election میں 100 نشستوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے۔
انتخابات کے دوران اے آئی ایم آئی ایم کے قومی صدر اسد الدین اویسی نے کچھ منتخب سیٹوں پر کافی محنت کی اور درجنوں ریلیوں و اجلاس سے خطاب کیا، لیکن کیا اسد الدین اویسی کی یہ محنت رنگ لائے گی یا انہیں 2017 اسمبلی انتخابات کی طرح ایک بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے ووٹوں کی گنتی کل 10 مارچ کو ہوگی جس کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ اس دوران تمام سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی جیت کے دعوے کر رہی ہیں اور حکومت سازی کے خواب میں محو ہیں۔ Uttar Pradesh Assembly election Exit Poll
ایک جانب بھارتیہ جنتا پارٹی، سماجوادی پارٹی اور کانگریس میں مقابلی دیکھا جا رہا ہے تو وہیں دوسری جانب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلین بھی اپنی جیت کے لیے پُر امید ہے۔
اسد الدین اویسی کی قیادت والی ایم آئی ایم نے اتر پردیش میں بھاگیداری پریورتن مورچہ کے تحت بابو سنگھ کشواہا کی جن ادھیکار پارٹی اور وامن مشرا کی بی اے ایم سی ای ایف کے ساتھ اتحاد کے تحت میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا۔
بھاگیداری پریورتن مورچہ نے تمام 403 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا جن میں سے ایم آئی ایم نے تقریباً 100 سیٹوں پر امیدوار اتارے تھے۔
یوپی اسمبلی الیکشن میں ایم آئی ایم کے قومی صدر اسد الدین اویسی نے کافی دوڑ دھوپ کی اور درجنوں ریلیوں سے خطاب کیا۔ اس دوران انہوں نے اتر پردیش کی ریاستی حکومت سے لے کر مرکز کی مودی حکومت تک کو ہدف تنقید بنایا۔
اسد الدین اویسی نے بی جے پی کے دور اقتدار میں اقلیتوں پر ہو رہے مظالم، بیروزگاری اور مہنگائی سمیت کئی اہم اور بڑے معاملات پر عوام سے ووٹ کا مطالبہ کیا۔ اویسی کی تمام ریلیوں اور جلسوں میں بڑی تعداد میں ہجوم دیکھا جا رہا تھا۔
یوپی میں مسلسل ریلیوں کے دوران میرٹھ میں ایک بار اسد الدین اویسی پر جان لیوا حملہ بھی ہوا تھا۔ کچھ بدمعاشوں نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی لیکن خوش قسمتی سے اویسی کو کسی بھی قسم کی چوٹ یا زخم نہیں آیا۔
اس حملے کے بعد سے اپوزیشن نے بھی ریاستی حکومت کے آڑے ہاتھوں لیا تھا اور اسد الدین اویسی پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔
اس سے قبل بہار اسمبلی انتخابات کے دوران اسد الدین اویسی نے محض 20 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے جن میں سے 5 پانچ امیدواروں نے جیت درج کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا بہار کی طرز پر اتر پردیش میں اسد الدین اویسی کی مسلسل محنت رنگ لائے گی؟ کیا ان کی ریلیوں میں آنے والا ہجوم انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچا سکے گا؟ یہ بات کل یعنی دس مارچ کو نتائج کے اعلان کے بعد معلوم ہوسکے گی۔