ETV Bharat / state

Exit Polls: کیا اترپردیش میں تبدیلی کا نعرہ ناکام رہا؟ - اترپردیش انتخابات کے ایگزٹ پولز

اترپردیش انتخابات کے ایگزٹ پولز کے نتائج کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ سینئر صحافی سری نند جھا لکھتے ہیں کہ اپوزیشن رہنما، بی جے پی کے جارحانہ ہندوتوا کے برانڈ کا براہ راست مقابلہ کرنے میں ہچکچاتے نظر آئے، جبکہ وہ مندروں کے چکر لگا کر "نرم ہندوتوا" کو فروغ دینے کی کوشش کرتے رہے۔

کیا اترپردیش میں تبدیلی کا نعرہ ناکام رہا؟
کیا اترپردیش میں تبدیلی کا نعرہ ناکام رہا؟
author img

By

Published : Mar 9, 2022, 1:01 PM IST

Updated : Mar 9, 2022, 3:48 PM IST

اترپردیش اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول کے نتائج کے پیچھے تین وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی، وزیراعظم نریندر مودی نے مشرقی یوپی میں پولنگ کے آخری دو اہم مراحل کی ذمہ داری خود سنبھال لی اور کامیابی کے ساتھ ووٹروں کے موڈ کو بی جے پی کے حق میں تبدیل کیا۔ دوسرا، سماج وادی پارٹی کی زیرقیادت اپوزیشن، یوگی ادتیہ ناتھ حکومت کے خلاف اینٹی انکمبینسی کو اپنی جیت میں تبدیل کرنے میں پوری طرح ناکام رہا۔ تیسرا، یوپی کے ووٹرز میں بی جے پی کی جانب سے بھڑکائے گئے ہندوتوا کا عنصر ابھی بھی برقرار ہے۔

ایگزٹ پولز کی اکثریت نے بھارت میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کی پیش قیاسی کی ہے جبکہ انڈیا ٹوڈے مائی ایکسس نے تو 2017 کے انتخابات میں ہوئی جیت سے بھی بڑی جیت اس مرتبہ ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔

  • ایگزٹ پولز

ماضی کے کچھ انتخابات میں ایگزٹ پول کی پیشین گوئیاں بری طرح غلط ثابت ہوئی ہیں، جیسا کہ گذشتہ سال مغربی بنگال کے انتخابات میں دیکھا گیا تھا، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہوگی۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بھی ایگزٹ پول کی پیشین گوئیاں پوری طرح غلط ثابت ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ یوپی میں گزشتہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بھی تمام ایگزٹ پولز نے یہ پیش گوئی نہیں کی تھی کہ بی جے پی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرے گی۔ تاہم ایگزٹ پول کا امتحان 10 مارچ کو ہوجائے گا جب انتخابی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

موجودہ ایگزٹ پول کی پیشین گوئی میں اس بات کو واضح نہیں کیا گیا کہ آیا آخری مرحلہ کے تحت مشرقی یوپی میں 54 سیٹوں کے لیے ہوئی پولنگ کو پول میں شامل رکھا گیا یا نہیں جبکہ اس مرحلہ میں وارانسی، مرزا پور، اعظم گڑھ، بھدوہی، جونپور اور سون بھدرا میں ووٹنگ ہوئی، ان علاقوں کو 2014 تک ایس پی اور بی ایس پی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ 2017 کے اسمبلی اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں، بی جے پی نے اس خطے میں اپنی گرفت مضبوط کر لی، لیکن مشرقی یوپی ہمیشہ ایک مشکل علاقہ رہا۔ مثال کے طور پر، 2017 میں بی جے پی کی لہر نے سارے یوپی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا تاہم مشرقی یوپی کے نتائج اس سے کچھ برعکس تھے۔ گذشتہ انتخابات میں بی جے پی نے ان 54 نشستوں میں سے 29 پر کامیابی حاصل کی تھی۔

ایٹا، اٹاوہ اور مین پوری کے یادو اکثریتی علاقوں میں شکست کا سامنا کرنے کے باوجود ایس پی نے مشرقی یوپی میں 54 میں سے 11 سیٹیں جیتنے میں کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے 5 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی کو نظر میں رکھتے ہوئے ایس پی کی قیادت والے اتحاد نے مشرقی یوپی سے بھرپور امیدیں وابستہ رکھی ہیں۔

  • خواتین ووٹرز

اترپردیش اسمبلی انتخابات کے زیادہ تر مراحل میں، خاص طور پر آخری تین مرحلوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی یا ان کی تعداد مرد ووٹرز کے برابر رہی۔ جیسا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے۔ پولنگ کے 5ویں مرحلے میں مرد ووٹرز کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد 11 فیصد زیادہ تھی، جبکہ چھٹے مرحلے میں 3 فیصد زیادہ خواتین نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ اس طرح کے اعداد و شمار سے ایک منطقی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خواتین ووٹروں کی اکثریت نے بی جے پی کے اس دعوے کی حمایت کی ہے کہ ریاست میں امن و امان صورتحال میں بہتری آئی ہے۔

دیکھا جارہا ہے کہ خواتین ووٹرز کو مرکزی و ریاستی حکومت کی جانب سے براہ راست رقم کی منتقلی اسکیم، مفت راشن، وزیراعظم اجولا اسکیم سمیت دیگر فلاحی اسکیموں نے متاثر کیا ہے۔ سماج وادی پارٹی کی حکومت میں غنڈہ راج کی واپسی سے متعلق بی جے پی کے پروپگنڈہ نے بھی خواتین کے ذہنوں کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

  • اب بہت دیر ہو گئی

اترپردیش میں یوگی حکومت کو اینٹی انکمبینسی اور دیگر چیلنجز کا سامنا تھا۔ بیروزگاری اور قیمتوں میں اضافہ جیسے مسائل تھے، آوارہ مویشیوں کا مسئلہ بھی اہم تھا۔ اس کے علاوہ فارم ان پٹ کی بڑھتی ہوئی لاگت پر چھوٹے کسان غصہ میں تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

Election Commission On EVM Issue: ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کے الزام پر الیکشن کمیشن کا بیان

اپوزیشن رہنما بی جے پی کے جارحانہ ہندوتوا کے برانڈ کا براہ راست مقابلہ کرنے سے بھی گریز کرتے نظر آئے، جبکہ وہ مندروں کے چکر لگا کر ’’نرم ہندوتوا‘‘ کو فروغ دینے کی کوشش کرتے رہے۔

اترپردیش اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول کے نتائج کے پیچھے تین وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی، وزیراعظم نریندر مودی نے مشرقی یوپی میں پولنگ کے آخری دو اہم مراحل کی ذمہ داری خود سنبھال لی اور کامیابی کے ساتھ ووٹروں کے موڈ کو بی جے پی کے حق میں تبدیل کیا۔ دوسرا، سماج وادی پارٹی کی زیرقیادت اپوزیشن، یوگی ادتیہ ناتھ حکومت کے خلاف اینٹی انکمبینسی کو اپنی جیت میں تبدیل کرنے میں پوری طرح ناکام رہا۔ تیسرا، یوپی کے ووٹرز میں بی جے پی کی جانب سے بھڑکائے گئے ہندوتوا کا عنصر ابھی بھی برقرار ہے۔

ایگزٹ پولز کی اکثریت نے بھارت میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کی پیش قیاسی کی ہے جبکہ انڈیا ٹوڈے مائی ایکسس نے تو 2017 کے انتخابات میں ہوئی جیت سے بھی بڑی جیت اس مرتبہ ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔

  • ایگزٹ پولز

ماضی کے کچھ انتخابات میں ایگزٹ پول کی پیشین گوئیاں بری طرح غلط ثابت ہوئی ہیں، جیسا کہ گذشتہ سال مغربی بنگال کے انتخابات میں دیکھا گیا تھا، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہوگی۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بھی ایگزٹ پول کی پیشین گوئیاں پوری طرح غلط ثابت ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ یوپی میں گزشتہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بھی تمام ایگزٹ پولز نے یہ پیش گوئی نہیں کی تھی کہ بی جے پی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرے گی۔ تاہم ایگزٹ پول کا امتحان 10 مارچ کو ہوجائے گا جب انتخابی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

موجودہ ایگزٹ پول کی پیشین گوئی میں اس بات کو واضح نہیں کیا گیا کہ آیا آخری مرحلہ کے تحت مشرقی یوپی میں 54 سیٹوں کے لیے ہوئی پولنگ کو پول میں شامل رکھا گیا یا نہیں جبکہ اس مرحلہ میں وارانسی، مرزا پور، اعظم گڑھ، بھدوہی، جونپور اور سون بھدرا میں ووٹنگ ہوئی، ان علاقوں کو 2014 تک ایس پی اور بی ایس پی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ 2017 کے اسمبلی اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں، بی جے پی نے اس خطے میں اپنی گرفت مضبوط کر لی، لیکن مشرقی یوپی ہمیشہ ایک مشکل علاقہ رہا۔ مثال کے طور پر، 2017 میں بی جے پی کی لہر نے سارے یوپی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا تاہم مشرقی یوپی کے نتائج اس سے کچھ برعکس تھے۔ گذشتہ انتخابات میں بی جے پی نے ان 54 نشستوں میں سے 29 پر کامیابی حاصل کی تھی۔

ایٹا، اٹاوہ اور مین پوری کے یادو اکثریتی علاقوں میں شکست کا سامنا کرنے کے باوجود ایس پی نے مشرقی یوپی میں 54 میں سے 11 سیٹیں جیتنے میں کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے 5 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی کو نظر میں رکھتے ہوئے ایس پی کی قیادت والے اتحاد نے مشرقی یوپی سے بھرپور امیدیں وابستہ رکھی ہیں۔

  • خواتین ووٹرز

اترپردیش اسمبلی انتخابات کے زیادہ تر مراحل میں، خاص طور پر آخری تین مرحلوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی یا ان کی تعداد مرد ووٹرز کے برابر رہی۔ جیسا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے۔ پولنگ کے 5ویں مرحلے میں مرد ووٹرز کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد 11 فیصد زیادہ تھی، جبکہ چھٹے مرحلے میں 3 فیصد زیادہ خواتین نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ اس طرح کے اعداد و شمار سے ایک منطقی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خواتین ووٹروں کی اکثریت نے بی جے پی کے اس دعوے کی حمایت کی ہے کہ ریاست میں امن و امان صورتحال میں بہتری آئی ہے۔

دیکھا جارہا ہے کہ خواتین ووٹرز کو مرکزی و ریاستی حکومت کی جانب سے براہ راست رقم کی منتقلی اسکیم، مفت راشن، وزیراعظم اجولا اسکیم سمیت دیگر فلاحی اسکیموں نے متاثر کیا ہے۔ سماج وادی پارٹی کی حکومت میں غنڈہ راج کی واپسی سے متعلق بی جے پی کے پروپگنڈہ نے بھی خواتین کے ذہنوں کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

  • اب بہت دیر ہو گئی

اترپردیش میں یوگی حکومت کو اینٹی انکمبینسی اور دیگر چیلنجز کا سامنا تھا۔ بیروزگاری اور قیمتوں میں اضافہ جیسے مسائل تھے، آوارہ مویشیوں کا مسئلہ بھی اہم تھا۔ اس کے علاوہ فارم ان پٹ کی بڑھتی ہوئی لاگت پر چھوٹے کسان غصہ میں تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

Election Commission On EVM Issue: ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کے الزام پر الیکشن کمیشن کا بیان

اپوزیشن رہنما بی جے پی کے جارحانہ ہندوتوا کے برانڈ کا براہ راست مقابلہ کرنے سے بھی گریز کرتے نظر آئے، جبکہ وہ مندروں کے چکر لگا کر ’’نرم ہندوتوا‘‘ کو فروغ دینے کی کوشش کرتے رہے۔

Last Updated : Mar 9, 2022, 3:48 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.