اترپردیش کے ضلع رامپور کی جیل میں قید امروہہ کے باون کھیڑی گاؤں کی شبنم کو قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ تاہم فی الوقت پھانسی موخر کر دی گئی ہے۔
ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ شبنم کے والدین نے جو جائیداد چھوڑی ہے اس کا وارث کون ہوگا؟ شبنم، اس کا بیٹا یا کوئی اور؟
انہیں تمام سوالات کے جواب جاننے کے لیے ای ٹی وی بھارت نے ایڈووکیٹ ذہیب رسول خان سے گفتگو کی۔
ضلع امروہہ کا باون کھیڑی گاؤں ایک مرتبہ پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔ دراصل 14 اور 14 اپریل 2008 کی شب میں اپنے ہی کنبہ کے سات افراد کو اپنے عاشق کے ساتھ مل کر قتل کرنے والی شبنم کو عدالت نے سزائے موت سنائی ہے جبکہ سزا پر نظر ثانی کی اپیل کو صدر جمہوریہ نے بھی ایک بار خارج کر دیا ہے۔
اس کے بعد شبنم کا 8 سالہ بیٹا تاج بھی مسلسل میڈیا میں آکر صدر جمہوریہ اور وزیراعظم سے ماں کے لیے رحم کی درخواستیں کر رہا ہے۔
اس لیے شبنم کو پھانسی دی جائے گی یا نہیں دی جائے گی۔ ابھی تک حکام کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ شبنم کے والدین یا بھائی بہن کوئی اس دنیا میں نہیں ہیں۔ صرف شبنم اور اس کا بیٹا ہی ہے اور اگر شبنم کو پھانسی ہوتی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ والدین کی چھوڑی ہوئی ملکیت کس کو ملے گی؟
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران قانونی معاملوں کے ماہر ایڈووکیٹ ذہیب رسول خان نے کہا کہ جس بڑے جرم کی قصوروار شبنم پائی گئی ہے شرعی قانون ایسے لوگوں کو وراثت سے بے دخل کرنے کا حکم دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی قانون بھی شریعت لاء کی روشنی میں ہی فیصلہ دے گا اس لئے عین ممکن ہے کہ اب شبنم کے والدین کی ملکیت کے وارثین شبنم کے دیگر رشتہ دار، جیسے چچا، بھتیجے وغیرہ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ شبنم کا بیٹا بھی اس لیے اپنے نانا کی ملکیت کا وارث نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ شبنم کے جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد دنیا میں آیا ہے۔
بہرحال ایک جانب شبنم اتنے بڑے جرم کی قصوروار قرار دی گئی ہے اور دوسری جانب اس کا آٹھ سالہ معصوم بیٹا تاج ماں کی زندگی بخشنے کے لیے مسلسل رحم کی اپیل کر رہا ہے۔ اس سے ملک بھر کی نگاہیں صدر جمہوریہ ہند کی جانب لگی ہوئی ہیں کہ کیا وہ شبنم کو معاف کرنے کا حکم نامہ جاری کریں گے یا نہیں۔