ضیاالحق کو اس وقت ہلاک کیا گیا تھا جب وہ پردھان ننھے یادو کے قتل کی اطلاع پر تھانہ ہتھگواں حلقے کے محدی پور بلی پور گاؤں جائے وقوعہ پر پہونچے تھے۔ ان کی روح آج بھی انصاف کی منتظر ہے۔
ریاست اترپردیش میں پرتاپگڑھ ضلع کے کنڈہ سرکل میں 2009 بیچ کے آئی پی ایس افسر ضیاالحق بطور ڈی ایس پی تعینات تھے۔
یہ واقعہ 2/3 مارچ 2013 کا ہے جب ڈی ایس پی ضیاالحق کو اطلاع موصول ہوئی کہ تھانہ ہتھگواں حلقے کے محدی پور بلی پور گاوُں کے پردھان ننھے یادو کا قتل کر دیا گیا ہے۔
جب وہ جائے وقوع پر پہونچ کر بھیڑ کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کر رہے تھے تو شرپسند عناصر کے ذریعہ ان کو یرغمال بنا کر ان کی پسٹل چھین کر پہلے زدوکوب کیا اس کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔
ان کی لاش کئی گھنٹے تک کھیت میں پڑی رہی۔ اسی درمیان حملہ آووروں نے پردھان کے بھائی سریش یادو کا بھی گولی مار کر قتل کر دیا۔
اس وقت موقع پر پہونچی مقامی پولیس فورس ڈی ایس پی کو تنہا چھوڑ فرار ہو گئی تھی۔ جبکہ گنر عمران بھی جائے واردات سے راہ فرار اختیار کر لیا۔ شب میں وقوعہ کے بہت تاخیر سے پولیس پہونچی تو دیکھا ڈی ایس پی کی لاش کھیت میں پڑی تھی۔
پولیس ڈی ایس پی سمیت تینوں لاش کو قبضے میں لے کر مقتول پردھان کے بھائ یپون کمار کی شکایت پر راجا بھیاء حامی گڈو سنگھ۔ روہت سنگھ۔ اجیت پرتاپ سنگھ و اجئے پال سمیت چار ملزمان کے خلاف قتل سمیت دیگر سنگین دفعات میں نامزد کیس درج کیا گیا۔ عوام کے بڑھتے دباؤ کے سبب حکومت نے سی بی آئی کی تحقیقات کا حکم دیا۔
ادھر کابینی وزیر راجا بھیانے استعفی دے دیا ۔جبکہ سی بی آئی کی تحقیقات میں راجا بھیاء اور ان کے حامی بے قصور قرار دیئے گئے۔ مقتول کی بیوا پروین آزاد سی بی آئی تحقیقات سے مطمئین نہیں ہوئیں اور سی بی آئی عدالت سے رجوع کیا ۔مقدمہ عدالت میں زیر التوا ہے۔ ایک ایماندار افسر کے قتل سانحہ پر ہر شخص کے چشم اشکبار ہوئے۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ مقتول کو کیسے اور کب انصاف ملے گا۔ شہید کی روح آج بھی انصاف کے انتظار میں ہے ۔ان کی اس چھٹی برسی پر لوگوں نے یاد کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ جب ایک شہید پولیس افسر کو آج تک انصاف نہیں ملا تو عام شخص انصاف کی امید کیسے کر سکتا ہے؟