ETV Bharat / state

Renowned Poet Wamiq Jaunpuri وامق جونپوری سادہ مزاج شاعر جسے اہل جونپور بھول گئے - وامق جونپوری کا صوفی روایت سے تعلق تھا

وامق جونپوری ایک مشہور و معروف شاعر تھے۔ ان کو یاد کرتے ہوئے وامق جونپوری کے دوست اجے سنگھ نے کہا کہ جونپور میں درجنوں شعراء و ادباء موجود ہیں مگر کسی نے بھی شاعر وامق جونپوری کو ان کی یوم پیدائش کے موقع پر یاد نہیں کیا جو ادبی دنیا کے لیے مایوس کن بات ہے۔ Wamiq Jaunpuri who was forgotten by the people of Jaunpur

وامق جونپوری سادہ مزاج شاعر جسے اہل جونپور بھول گئے
وامق جونپوری سادہ مزاج شاعر جسے اہل جونپور بھول گئے
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 27, 2023, 4:58 PM IST

وامق جونپوری سادہ مزاج شاعر جسے اہل جونپور بھول گئے

جونپور، اترپردیش: ممتاز ترقی پسند و مشہور و معروف شاعر وامق جونپوری کی پیدائش جونپور مرکز سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر 23 اکتوبر 1909 کو موضع کجگاؤں میں ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ ان کا اصلی نام احمد مجتبیٰ زیدی تھا۔ وامق جونپوری کے والد محمد مصطفیٰ ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ وامق جونپوری نے ابتدائی تعلیم بارہ بنکی میں حاصل کی اور ہائی اسکول کرنے کے لیے فیض آباد چلے آئے۔ وامق جونپوری کی شخصیت ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شعراء کے نزدیک بہت اہم ہے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ دنوں تک فیض آباد میں وکالت کی لیکن شاعرانہ طبیعت نے ان کو ایک الگ سفر پر روانہ کردیا۔ اسی بیچ انہوں نے سجاد ظہیر کی صحبت اختیار کی۔ جن سے ان کا رجحان تحریک آزادی کی جد وجہد کی طرف بڑھنے لگا۔ اس طرح انہوں نے 1940 سے اپنی شاعری کا با ضابطہ آغاز کیا۔ انہوں نے 1940 میں شعر و شاعری کی شروعات کی۔ 1967 میں وہ جونپور تشریف لائے۔ اس سلسلہ میں مشہور شاعر احمد نثار جونپوری نے ان کی تعریف کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

وامق جونپوری سادہ مزاج شاعر جسے اہل جونپور بھول گئے
وامق جونپوری سادہ مزاج شاعر جسے اہل جونپور بھول گئے

یہ بھی پڑھیں:

Ek Shayar Program ایک شاعر پروگرام، معروف شاعر ازہر اقبال سے خصوصی گفتگو

وامق جونپوری کا صوفی روایت سے تعلق تھا

جونپور میں درجنوں شعراء و ادباء موجود ہیں، مگر کسی نے بھی شاعر وامق جونپوری کو ان کی یوم پیدائش کے موقع پر یاد نہیں کیا جو ادبی دنیا کے لیے مایوس کن بات ہے. وہیں وامق جونپوری کے دوست اجے سنگھ آج بھی ان کی یادوں کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان کے یوم پیدائش اور یوم وفات کے موقع پر پروگرام کا انعقاد کرکے ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آج بھی جب اجے سنگھ، وامق جونپوری کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کرکے ان کی آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔ اس موقع پر ای ٹی وی بھارت اردو نے وامق جونپوری کے یادوں کے تعلق سے خاص بات چیت کی ہے۔

اجے سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وامق جونپوری کے آباء و اجداد صوفی روایت سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے دادا مجاہدین آزادی کو پناہ دینے کے جرم میں ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ اس لیے وامق جونپوری کے اندر دونوں چیزوں کا اثر دیکھنے کو ملتا تھا۔ وامق جونپوری کے آباء واجداد بڑی پوسٹ پر تھے۔ کجگاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں جتنے افسر ہوئے، صاحب صرف وامق جونپوری کو ہی کہا جاتا تھا، انہوں نے بتایا کہ وامق جونپوری بہت سادہ طبیعت والے آدمی تھے۔ کبھی انہوں نے اپنا لیے کچھ نہیں طلب کیا۔


وامق جونپوری خود اصلاح پسند تھے
انہوں نے بتایا کہ وامق جونپوری اپنے اشعار کہنے کے بعد بھی اصلاح کرتے رہتے تھے۔ ان کے اندر خود اصلاحی بہت تھی اور ان کے تعلقات بہت بڑے بڑے لوگوں سے تھے۔ سروجنی نائیڈو انہیں اپنا بیٹا مانتی تھی، انہوں نے بتایا کہ وامق جونپوری کی نظم بھوکا بنگال کو IPTA نے پڑھ کر بنگال ریلیف کے لیے 80 ہزار روپیہ اور اناج جمع کیا تھا۔ اس نظم نے وامق کو شہرۂ آفاق شاعر بنا دیا تھا، اجے سنگھ نے کہا کہ وامق جونپوری میرے دوست ہی نہیں بلکہ گھر کے ایک فرد تھے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وامق جونپوری کو اردو سے زیادہ ہندی کے لوگوں نے عزت بخشی ہے۔ وامق کو جتنا پڑھا جانا چاہیے تھا۔ اتنا پڑھا نہیں گیا۔ مگر آج بھی انہیں یاد کیا جا رہا ہے۔ کل بھی یاد کیا جاتا رہے گا۔

مشہور و معروف شاعر احمد نثار جونپوری نے کہا کہ وامق جونپوری کی شخصیت ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شعراء کے نزدیک بہت اہم ترین تو ہے ہی، ہمارے جونپور کے لیے بھی ان کی شخصیت بہت اہم ہے۔ وامق جونپوری نے لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس میں شرکت کی، جو منشی پریم چند کی صدارت میں ہوئی تھی۔ اس دوران وہ ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور انگارے کی کاپیاں تقسیم کر رہے تھے۔ اس وقت ان کا شاعری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے 1940 میں شعر و شاعری کی شروعات کی اور شاعری کی بدولت وامق جونپوری کو نوکری ملی اور شاعری کی ہی وجہ سے ان کو اپنی نوکری سے مستعفی ہونا پڑا اور 1967 میں وہ جونپور تشریف لائے۔ وامق جونپوری نو آمیز ادیبوں سے شفقت و محبت کرتے تھے۔


وامق جونپوری کے چند اشعار

ہم اپنی تلخِ نوائی میں رنگ بھر دیں گے
ہمارے ساتھ ہمارا کلام بدلے گا

ابنِ آدم خوشۂ گندم پہ ہے مائل بہ جنگ
یہ نہ ہے مسجد کا قصہ اور نہ بت خانوں کی بات

در مے کدے کا بند حرم کا چراغِ گل
خونِ جگر پئیں کہ لہو سے وضو کریں

جینے کا لطف کچھ تو اٹھاؤ نشے میں آؤ
ہنستے ہیں کیسے غم میں دکھاؤ نشے میں آؤ

حضورِ یار بھی آزردگی نہیں جاتی
کہ ہم سے اتنی بھی دوری سہی نہیں جاتی

ہمارے بتکدۂ دل میں ڈھونڈ تو زاہد
یہیں کہیں ترا کعبہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

وامق جونپوری کی ادبی خدمات کے لیے انہیں بہت سے انعامات سے بھی نوازا گیا۔ 1980 میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ 1986 میں اتر پردیش اردو اکیڈمی کا امتیازی انعام اور امتیاز میر اکیڈمی ایوارڈ بھی شامل ہیں۔ 1998 میں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی نے پس مرگ غالب ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "چیخیں" ہے۔ اس کے علاوہ "جرس" "شب چراغ" "سفر نا تمام" اور انہوں نے اپنی سوانح "گفتنی ناگفتنی" لکھا ہے 21 نومبر 1998 کو شام سات بجے وامق جونپوری کا انتقال ہوا۔

وامق جونپوری سادہ مزاج شاعر جسے اہل جونپور بھول گئے

جونپور، اترپردیش: ممتاز ترقی پسند و مشہور و معروف شاعر وامق جونپوری کی پیدائش جونپور مرکز سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر 23 اکتوبر 1909 کو موضع کجگاؤں میں ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ ان کا اصلی نام احمد مجتبیٰ زیدی تھا۔ وامق جونپوری کے والد محمد مصطفیٰ ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ وامق جونپوری نے ابتدائی تعلیم بارہ بنکی میں حاصل کی اور ہائی اسکول کرنے کے لیے فیض آباد چلے آئے۔ وامق جونپوری کی شخصیت ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شعراء کے نزدیک بہت اہم ہے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ دنوں تک فیض آباد میں وکالت کی لیکن شاعرانہ طبیعت نے ان کو ایک الگ سفر پر روانہ کردیا۔ اسی بیچ انہوں نے سجاد ظہیر کی صحبت اختیار کی۔ جن سے ان کا رجحان تحریک آزادی کی جد وجہد کی طرف بڑھنے لگا۔ اس طرح انہوں نے 1940 سے اپنی شاعری کا با ضابطہ آغاز کیا۔ انہوں نے 1940 میں شعر و شاعری کی شروعات کی۔ 1967 میں وہ جونپور تشریف لائے۔ اس سلسلہ میں مشہور شاعر احمد نثار جونپوری نے ان کی تعریف کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

وامق جونپوری سادہ مزاج شاعر جسے اہل جونپور بھول گئے
وامق جونپوری سادہ مزاج شاعر جسے اہل جونپور بھول گئے

یہ بھی پڑھیں:

Ek Shayar Program ایک شاعر پروگرام، معروف شاعر ازہر اقبال سے خصوصی گفتگو

وامق جونپوری کا صوفی روایت سے تعلق تھا

جونپور میں درجنوں شعراء و ادباء موجود ہیں، مگر کسی نے بھی شاعر وامق جونپوری کو ان کی یوم پیدائش کے موقع پر یاد نہیں کیا جو ادبی دنیا کے لیے مایوس کن بات ہے. وہیں وامق جونپوری کے دوست اجے سنگھ آج بھی ان کی یادوں کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان کے یوم پیدائش اور یوم وفات کے موقع پر پروگرام کا انعقاد کرکے ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آج بھی جب اجے سنگھ، وامق جونپوری کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کرکے ان کی آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔ اس موقع پر ای ٹی وی بھارت اردو نے وامق جونپوری کے یادوں کے تعلق سے خاص بات چیت کی ہے۔

اجے سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وامق جونپوری کے آباء و اجداد صوفی روایت سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے دادا مجاہدین آزادی کو پناہ دینے کے جرم میں ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ اس لیے وامق جونپوری کے اندر دونوں چیزوں کا اثر دیکھنے کو ملتا تھا۔ وامق جونپوری کے آباء واجداد بڑی پوسٹ پر تھے۔ کجگاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں جتنے افسر ہوئے، صاحب صرف وامق جونپوری کو ہی کہا جاتا تھا، انہوں نے بتایا کہ وامق جونپوری بہت سادہ طبیعت والے آدمی تھے۔ کبھی انہوں نے اپنا لیے کچھ نہیں طلب کیا۔


وامق جونپوری خود اصلاح پسند تھے
انہوں نے بتایا کہ وامق جونپوری اپنے اشعار کہنے کے بعد بھی اصلاح کرتے رہتے تھے۔ ان کے اندر خود اصلاحی بہت تھی اور ان کے تعلقات بہت بڑے بڑے لوگوں سے تھے۔ سروجنی نائیڈو انہیں اپنا بیٹا مانتی تھی، انہوں نے بتایا کہ وامق جونپوری کی نظم بھوکا بنگال کو IPTA نے پڑھ کر بنگال ریلیف کے لیے 80 ہزار روپیہ اور اناج جمع کیا تھا۔ اس نظم نے وامق کو شہرۂ آفاق شاعر بنا دیا تھا، اجے سنگھ نے کہا کہ وامق جونپوری میرے دوست ہی نہیں بلکہ گھر کے ایک فرد تھے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وامق جونپوری کو اردو سے زیادہ ہندی کے لوگوں نے عزت بخشی ہے۔ وامق کو جتنا پڑھا جانا چاہیے تھا۔ اتنا پڑھا نہیں گیا۔ مگر آج بھی انہیں یاد کیا جا رہا ہے۔ کل بھی یاد کیا جاتا رہے گا۔

مشہور و معروف شاعر احمد نثار جونپوری نے کہا کہ وامق جونپوری کی شخصیت ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شعراء کے نزدیک بہت اہم ترین تو ہے ہی، ہمارے جونپور کے لیے بھی ان کی شخصیت بہت اہم ہے۔ وامق جونپوری نے لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس میں شرکت کی، جو منشی پریم چند کی صدارت میں ہوئی تھی۔ اس دوران وہ ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور انگارے کی کاپیاں تقسیم کر رہے تھے۔ اس وقت ان کا شاعری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے 1940 میں شعر و شاعری کی شروعات کی اور شاعری کی بدولت وامق جونپوری کو نوکری ملی اور شاعری کی ہی وجہ سے ان کو اپنی نوکری سے مستعفی ہونا پڑا اور 1967 میں وہ جونپور تشریف لائے۔ وامق جونپوری نو آمیز ادیبوں سے شفقت و محبت کرتے تھے۔


وامق جونپوری کے چند اشعار

ہم اپنی تلخِ نوائی میں رنگ بھر دیں گے
ہمارے ساتھ ہمارا کلام بدلے گا

ابنِ آدم خوشۂ گندم پہ ہے مائل بہ جنگ
یہ نہ ہے مسجد کا قصہ اور نہ بت خانوں کی بات

در مے کدے کا بند حرم کا چراغِ گل
خونِ جگر پئیں کہ لہو سے وضو کریں

جینے کا لطف کچھ تو اٹھاؤ نشے میں آؤ
ہنستے ہیں کیسے غم میں دکھاؤ نشے میں آؤ

حضورِ یار بھی آزردگی نہیں جاتی
کہ ہم سے اتنی بھی دوری سہی نہیں جاتی

ہمارے بتکدۂ دل میں ڈھونڈ تو زاہد
یہیں کہیں ترا کعبہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

وامق جونپوری کی ادبی خدمات کے لیے انہیں بہت سے انعامات سے بھی نوازا گیا۔ 1980 میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ 1986 میں اتر پردیش اردو اکیڈمی کا امتیازی انعام اور امتیاز میر اکیڈمی ایوارڈ بھی شامل ہیں۔ 1998 میں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی نے پس مرگ غالب ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "چیخیں" ہے۔ اس کے علاوہ "جرس" "شب چراغ" "سفر نا تمام" اور انہوں نے اپنی سوانح "گفتنی ناگفتنی" لکھا ہے 21 نومبر 1998 کو شام سات بجے وامق جونپوری کا انتقال ہوا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.