ETV Bharat / state

Maulana Anwar Qasmi Jaunpur: جامعہ گروپ کے چیئرمین مولانا انوار احمد قاسمی کی نمایاں خدمات

author img

By

Published : Jan 26, 2022, 11:00 AM IST

مولانا انوار احمد قاسمی نے ضلع جونپورکے و اطراف کے دیہی علاقوں میں جہاں تعلیمی پسماندگی تھی وہاں پر مساجد کے قیام کے ساتھ ساتھ اب تک 49 مکاتب قائم کر چکے ہیں جس میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے بنیادی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ Maulana Anwar Qasmi Jaunpur

مولانا انواراحمد قاسمی کی نمایاں خدمات
مولانا انواراحمد قاسمی کی نمایاں خدمات

اتر پردیش کا ضلع جونپور ہر دور میں علم و فن کا مرکز رہا ہے۔ شرقی و مغل دور میں اس شہر کو علوم و فنون کی راجدھانی کہا جاتا تھا جس کی وجہ سے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اس شہر کو شیراز ہند کا خطاب دیا تھا۔

مولانا انواراحمد قاسمی کی نمایاں خدمات

موجودہ وقت میں بھی ضلع میں چند شخصیات ایسی ہیں جو تعلیمی میدان میں غیر معمولی خدمات کو انجام دے رہی ہیں۔ اسی میں ایک نام جامعہ گروپ آف ایجوکیشن کے چیئرمین مولانا انوار احمد قاسمی کا ہے جو اس وقت ضلع میں مدر عائشہ آئی ٹی آئی، ایم اے شعیب آئی ٹی آئی، مدر عائشہ چلڈرن اکیڈمی سینئر سیکنڈری اسکول،مدرسہ جامعہ مومنہ للبنات،ڈسٹینس ایجوکیشن سینٹر علیگڑھ، پیرا میڈیکل کالج کے نام سے متعدد ادارے اور سینٹرز چلا رہے ہیں۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں اقلیتی طبقے سے وابستہ بچے عصری و دینی علوم حاصل کر رہے ہیں۔ اور جو بچے تعلیمی اخراجات کو مکمل کرنے میں قاصر رہتے ہیں وہ ان بچوں کو مفت میں تعلیم دیتے ہیں۔
مولانا نے ضلع جونپور و اطراف کے دیہی علاقوں میں جہاں تعلیمی پسماندگی تھی وہاں پر مساجد کے قیام کے ساتھ ساتھ ابتک 49 مکاتب قائم کر چکے ہیں جس میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے بنیادی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مولانا کا ماننا ہے کہ ہمیں اپنی مذہبی تشخص کو برقرار و مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ عصری و جدید علوم کو بھی بھر پور حاصل کرنا چاہیے۔ان کی تعلیمی میدان میں بیش بہا خدمات کی وجہ سے علاقے میں خاصی پذیرائی کی جاتی ہے تعلیم کے تعلق سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی بات چیت کی ہے.
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا انوار احمد قاسمی نے بتایا کہ مکاتب کی ہر دور میں اپنی ایک شناخت اور اہمیت رہی ہے اور مکاتب ہی بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مگر موجودہ وقت میں مسلمانوں کے سامنے تعلیم کو لیکر کافی چیلنجز ہیں۔ کچھ لوگوں نے صرف ایک طرفہ محنت کی ہے۔ جس کی وجہ سے جدید علوم کو لیکر مسلمانوں میں کافی پسماندگی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جدید اور قدیم علوم کی تفریق میں غلط مانتا ہوں قرآن اس کا واضح ثبوت ہے کیونکہ کہا گیا علّم آدم الاسماء کلّہا جب تمام چیزوں کی شناخت ہو جائے گی تو اس سے اللہ کی بھی پہچان ہو جائے گی کیونکہ جو علم بھی خالقِ کائنات کی شناخت کرائےگا وہ علم مقصود ہے.

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ وقت میں جو بھارت میں مدارس ہیں ان کے قیام کا مقصد ہے کہ اس سے وہ علماء و فضلاء پیدا ہو سکیں جو مسلمانوں کی دینی رہنمائی کر سکیں اور مدرسے میں داخل ہونے والے بچوں کا فیصد بہت کم ہے۔ دینی رہنمائی کرنے کے لیے ایسے فضلاء کا ہونا ضروری ہے اور دنیا کے دیگر شعبوں میں داخل ہونے کے لیے عصری علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ کمی ہمارے درمیان باہمی ربط ہے۔ کیونکہ عصری و دینی علوم والوں نے ایک لکیر کھینچ کر اپنے درمیان ایک تفریق پیدا کرلی ہے ربط باہمی اور تنظیم کی کمی کے باعث یہ دوریاں نظر آرہی ہیں۔
مولانا نے کہا کہ مدارس نے جس نہج کو اختیار کیا ہے وہ اپنے مشن اور نہج میں کامیاب ہے اقلیتی کالجز کو چاہیے کہ وہ عصری علوم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی تشخص کو بھی برقرار رکھیں اور جو مدارس ہیں ان کو چاہیے کہ وہ خود کو مفید بنا سکتے ہیں کم سے کم جونیئر ہائی اسکول، ہائی اسکول تک کی تعلیم کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ ایک ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ ایک حد تک سب کو باہم امتزاج کے ساتھ پڑھایا جائے پھر آگے یہ اختیار ہو کہ جو بچے میڈیکل، سائنس، سول سروسز یا کسی دوسرے شعبے میں جانے کے خواہاں ہوں وہ بآسانی جا سکیں.
انہوں نے بتایا کہ ہم نے جائزہ لیا کہ مدرسے سے فارغین طلباء کی فیصد بہت کم ہے۔ اور اسکول کالج میں جانے والے بچے بالمقابل مدارس کے بچوں کے زیادہ ہیں اس لیے ہم نے یہ سوچا کہ ایک ایسا نظام تعلیم اختیار کریں کہ جو مذہبی عقائد اور مذہبی تشخص کے ساتھ ساتھ وہ بچے جدید علوم کے میدان میں آگے بڑھیں اور مین اسٹریم سے وابستہ ہو سکیں۔

انہوں نے آگے کہا کہ کسی بھی قوم کی ترقی تبھی ممکن ہے کہ جب اس کی سوچ میں تبدیلی آئے اگر کوئی قوم زوال و پستی کا شکار ہوتی ہے تو اولیں اس کی سوچ مفلوج ہو جاتی ہے تو ہمیں اپنا ہدف متعین کرنا چاہیے اور بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہنا چاہیے اور ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے کیونکہ آج یہی ایک سوچ کی وجہ سے ہماری تعلیمی پسماندگی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

اتر پردیش کا ضلع جونپور ہر دور میں علم و فن کا مرکز رہا ہے۔ شرقی و مغل دور میں اس شہر کو علوم و فنون کی راجدھانی کہا جاتا تھا جس کی وجہ سے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اس شہر کو شیراز ہند کا خطاب دیا تھا۔

مولانا انواراحمد قاسمی کی نمایاں خدمات

موجودہ وقت میں بھی ضلع میں چند شخصیات ایسی ہیں جو تعلیمی میدان میں غیر معمولی خدمات کو انجام دے رہی ہیں۔ اسی میں ایک نام جامعہ گروپ آف ایجوکیشن کے چیئرمین مولانا انوار احمد قاسمی کا ہے جو اس وقت ضلع میں مدر عائشہ آئی ٹی آئی، ایم اے شعیب آئی ٹی آئی، مدر عائشہ چلڈرن اکیڈمی سینئر سیکنڈری اسکول،مدرسہ جامعہ مومنہ للبنات،ڈسٹینس ایجوکیشن سینٹر علیگڑھ، پیرا میڈیکل کالج کے نام سے متعدد ادارے اور سینٹرز چلا رہے ہیں۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں اقلیتی طبقے سے وابستہ بچے عصری و دینی علوم حاصل کر رہے ہیں۔ اور جو بچے تعلیمی اخراجات کو مکمل کرنے میں قاصر رہتے ہیں وہ ان بچوں کو مفت میں تعلیم دیتے ہیں۔
مولانا نے ضلع جونپور و اطراف کے دیہی علاقوں میں جہاں تعلیمی پسماندگی تھی وہاں پر مساجد کے قیام کے ساتھ ساتھ ابتک 49 مکاتب قائم کر چکے ہیں جس میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے بنیادی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مولانا کا ماننا ہے کہ ہمیں اپنی مذہبی تشخص کو برقرار و مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ عصری و جدید علوم کو بھی بھر پور حاصل کرنا چاہیے۔ان کی تعلیمی میدان میں بیش بہا خدمات کی وجہ سے علاقے میں خاصی پذیرائی کی جاتی ہے تعلیم کے تعلق سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی بات چیت کی ہے.
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا انوار احمد قاسمی نے بتایا کہ مکاتب کی ہر دور میں اپنی ایک شناخت اور اہمیت رہی ہے اور مکاتب ہی بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مگر موجودہ وقت میں مسلمانوں کے سامنے تعلیم کو لیکر کافی چیلنجز ہیں۔ کچھ لوگوں نے صرف ایک طرفہ محنت کی ہے۔ جس کی وجہ سے جدید علوم کو لیکر مسلمانوں میں کافی پسماندگی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جدید اور قدیم علوم کی تفریق میں غلط مانتا ہوں قرآن اس کا واضح ثبوت ہے کیونکہ کہا گیا علّم آدم الاسماء کلّہا جب تمام چیزوں کی شناخت ہو جائے گی تو اس سے اللہ کی بھی پہچان ہو جائے گی کیونکہ جو علم بھی خالقِ کائنات کی شناخت کرائےگا وہ علم مقصود ہے.

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ وقت میں جو بھارت میں مدارس ہیں ان کے قیام کا مقصد ہے کہ اس سے وہ علماء و فضلاء پیدا ہو سکیں جو مسلمانوں کی دینی رہنمائی کر سکیں اور مدرسے میں داخل ہونے والے بچوں کا فیصد بہت کم ہے۔ دینی رہنمائی کرنے کے لیے ایسے فضلاء کا ہونا ضروری ہے اور دنیا کے دیگر شعبوں میں داخل ہونے کے لیے عصری علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ کمی ہمارے درمیان باہمی ربط ہے۔ کیونکہ عصری و دینی علوم والوں نے ایک لکیر کھینچ کر اپنے درمیان ایک تفریق پیدا کرلی ہے ربط باہمی اور تنظیم کی کمی کے باعث یہ دوریاں نظر آرہی ہیں۔
مولانا نے کہا کہ مدارس نے جس نہج کو اختیار کیا ہے وہ اپنے مشن اور نہج میں کامیاب ہے اقلیتی کالجز کو چاہیے کہ وہ عصری علوم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی تشخص کو بھی برقرار رکھیں اور جو مدارس ہیں ان کو چاہیے کہ وہ خود کو مفید بنا سکتے ہیں کم سے کم جونیئر ہائی اسکول، ہائی اسکول تک کی تعلیم کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ ایک ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ ایک حد تک سب کو باہم امتزاج کے ساتھ پڑھایا جائے پھر آگے یہ اختیار ہو کہ جو بچے میڈیکل، سائنس، سول سروسز یا کسی دوسرے شعبے میں جانے کے خواہاں ہوں وہ بآسانی جا سکیں.
انہوں نے بتایا کہ ہم نے جائزہ لیا کہ مدرسے سے فارغین طلباء کی فیصد بہت کم ہے۔ اور اسکول کالج میں جانے والے بچے بالمقابل مدارس کے بچوں کے زیادہ ہیں اس لیے ہم نے یہ سوچا کہ ایک ایسا نظام تعلیم اختیار کریں کہ جو مذہبی عقائد اور مذہبی تشخص کے ساتھ ساتھ وہ بچے جدید علوم کے میدان میں آگے بڑھیں اور مین اسٹریم سے وابستہ ہو سکیں۔

انہوں نے آگے کہا کہ کسی بھی قوم کی ترقی تبھی ممکن ہے کہ جب اس کی سوچ میں تبدیلی آئے اگر کوئی قوم زوال و پستی کا شکار ہوتی ہے تو اولیں اس کی سوچ مفلوج ہو جاتی ہے تو ہمیں اپنا ہدف متعین کرنا چاہیے اور بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہنا چاہیے اور ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے کیونکہ آج یہی ایک سوچ کی وجہ سے ہماری تعلیمی پسماندگی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.