ETV Bharat / state

Ustad Bismillah Khan: شہنائی نوازی، سادگی اور انسانیت کا امتزاج استاد بسم اللہ خان

author img

By

Published : Mar 21, 2022, 5:48 PM IST

Updated : Apr 6, 2022, 2:42 PM IST

کہا جاتا ہے کہ کمال کی شہنائی نوازی، سادگی اور انسانیت نوازی کو اکٹھا کیا جائے تو استاد بسم اللہ خان کی تصویر بنتی ہے۔ Combination of Simplicity and Humanity آج ان کا 106واں یوم پیدائش ہے، اس موقع پر انہیں ملک کے مختلف علاقوں سے خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔ Ustad Bismillah Khan

استاد بسم اللہ خان
استاد بسم اللہ خان

استاد بسم اللہ خان ہمیشہ سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے تھے، وہ کمال کے شہنائی نواز تھے، انہیں بھارت رتن اعزاز سے بھی نوازا گیا، موسیقی اور نغمہ سے حد درجہ کی وارفتگی رکھتے تھے۔

شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان کو آزادی کے استقبال میں لال قلعہ پر شہنائی بجانے کے لیے بلایا گیا تھا۔ Shehnai Nawaz Ustad Bismillah Khan اس وقت بھارت کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی جواہر لال نہرو بھی موجود تھے۔ نہرو، بسم اللہ خان کے شہنائی سے اتنا متاثر ہوئے کہ ان کو استاد کے لقب سے نواز دیا تبھی سے انہیں استاد بسم اللہ خان کہا جانے لگا۔

آج ان کا 106واں یوم پیدائش ہے، اس موقع پر انہیں ملک کے مختلف علاقوں سے خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔

بنارس کے درگاہ فاطمان میں واقع ان کی قبر پر ان کے اہل خانہ و دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی رہنماؤں نے پہنچ کر ان کو خراج عقیدت پیش کیا۔

شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان کی پیدائش 21 مارچ 1916 کو ریاست بہار کے بکسر ضلع کے ڈمراؤں میں ہوئی تھی اور 21 اگست 2006 کو بنارس میں ان کا انتقال ہوا۔

حالیہ دنوں میں استاد بسم اللہ خان جس کمرے میں بیٹھ کر شہنائی کا ریاض کیا کرتے تھے، اس کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئی اور پورے گھر کو کمرشیل بلڈنگ بنانے کا منصوبہ تھا لیکن ان کے اہل خانہ کے کچھ افراد اور موسیقی کے میدان سے وابستہ لوگوں کی مخالفت پر بنارس ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ایکشن لیتے ہوئے گھر کی انہدامی کارروائی پر روک لگا دی۔

استاد بسم اللہ خان نے جہاں کمال کی شہنائی بجا کر دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کیا وہیں اب ان کے اہل خانہ تنگ دستی و گمنامی کی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔

بسم اللہ خان کی بیٹی زرینہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا تھا کہ حالات ایسے ناگفتہ بہ تھے کہ دو بھائی اور شوہر بیماری کے سبب انتقال کرگئے کیونکہ علاج کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اور وہی تنگ دستی ابھی بھی جاری ہے، تنگدستی کی وجہ سے پورا خاندان پریشان رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ کی بار بارحکومت سے امداد کا بھی مطالبہ کرتے ہیں لیکن اسے پورا نہیں کیا جارہا۔

21 اگست 2006 کو بھارت رتن شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان نے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا جس سے موسیقی کی دنیا میں سوگ کی لہر دوڑ گئی تھی۔

بسم اللہ خان ابتدائی عمر میں اپنے چچا علی بخش کے پاس بنارس آ گئے تھے اور ان سے شہنائی بجانے کا ہنر سیکھا۔

استاد بسم اللہ خان بنارس کے بالاجی مندر میں برسوں تک شہنائی نواز رہے۔ بنارس کے مزاج کو اپنی روح میں جذب کر لینے والے استاد بسم اللہ خان نے اپنی پوری زندگی شہنائی اور اس کی موسیقی کے لیے وقف کر دی۔ اور اپنے اس منفرد فن کے ذریعہ اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کی۔ انہیں ملک کا اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ بھارت رتن سے بھی نوازا گیا تھا۔

بسم اللہ خان عزاداری کے ایام میں بنارس کے درگاہ فاطمان میں شہنائی بجاتے تھے اور امام حسین سے بے حد محبت کرتے تھے۔ محرم کے ایام میں خان صاحب چپل نہیں پہنتے تھے۔

درگاہ فاطمان میں ایک کنویں کے قریب چٹائی بچھا کر شہنائی بجاتے اور محرم کے جلوس میں شرکت کرتے تھے۔ بسم اللہ خان جس مقام پر بیٹھ کر شہنائی بجاتے تھے اسی جگہ پر آج وہ مدفون ہیں۔

استاد بسم اللہ خان ہمیشہ سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے تھے، وہ کمال کے شہنائی نواز تھے، انہیں بھارت رتن اعزاز سے بھی نوازا گیا، موسیقی اور نغمہ سے حد درجہ کی وارفتگی رکھتے تھے۔

شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان کو آزادی کے استقبال میں لال قلعہ پر شہنائی بجانے کے لیے بلایا گیا تھا۔ Shehnai Nawaz Ustad Bismillah Khan اس وقت بھارت کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی جواہر لال نہرو بھی موجود تھے۔ نہرو، بسم اللہ خان کے شہنائی سے اتنا متاثر ہوئے کہ ان کو استاد کے لقب سے نواز دیا تبھی سے انہیں استاد بسم اللہ خان کہا جانے لگا۔

آج ان کا 106واں یوم پیدائش ہے، اس موقع پر انہیں ملک کے مختلف علاقوں سے خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔

بنارس کے درگاہ فاطمان میں واقع ان کی قبر پر ان کے اہل خانہ و دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی رہنماؤں نے پہنچ کر ان کو خراج عقیدت پیش کیا۔

شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان کی پیدائش 21 مارچ 1916 کو ریاست بہار کے بکسر ضلع کے ڈمراؤں میں ہوئی تھی اور 21 اگست 2006 کو بنارس میں ان کا انتقال ہوا۔

حالیہ دنوں میں استاد بسم اللہ خان جس کمرے میں بیٹھ کر شہنائی کا ریاض کیا کرتے تھے، اس کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئی اور پورے گھر کو کمرشیل بلڈنگ بنانے کا منصوبہ تھا لیکن ان کے اہل خانہ کے کچھ افراد اور موسیقی کے میدان سے وابستہ لوگوں کی مخالفت پر بنارس ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ایکشن لیتے ہوئے گھر کی انہدامی کارروائی پر روک لگا دی۔

استاد بسم اللہ خان نے جہاں کمال کی شہنائی بجا کر دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کیا وہیں اب ان کے اہل خانہ تنگ دستی و گمنامی کی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔

بسم اللہ خان کی بیٹی زرینہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا تھا کہ حالات ایسے ناگفتہ بہ تھے کہ دو بھائی اور شوہر بیماری کے سبب انتقال کرگئے کیونکہ علاج کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اور وہی تنگ دستی ابھی بھی جاری ہے، تنگدستی کی وجہ سے پورا خاندان پریشان رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ کی بار بارحکومت سے امداد کا بھی مطالبہ کرتے ہیں لیکن اسے پورا نہیں کیا جارہا۔

21 اگست 2006 کو بھارت رتن شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان نے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا جس سے موسیقی کی دنیا میں سوگ کی لہر دوڑ گئی تھی۔

بسم اللہ خان ابتدائی عمر میں اپنے چچا علی بخش کے پاس بنارس آ گئے تھے اور ان سے شہنائی بجانے کا ہنر سیکھا۔

استاد بسم اللہ خان بنارس کے بالاجی مندر میں برسوں تک شہنائی نواز رہے۔ بنارس کے مزاج کو اپنی روح میں جذب کر لینے والے استاد بسم اللہ خان نے اپنی پوری زندگی شہنائی اور اس کی موسیقی کے لیے وقف کر دی۔ اور اپنے اس منفرد فن کے ذریعہ اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کی۔ انہیں ملک کا اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ بھارت رتن سے بھی نوازا گیا تھا۔

بسم اللہ خان عزاداری کے ایام میں بنارس کے درگاہ فاطمان میں شہنائی بجاتے تھے اور امام حسین سے بے حد محبت کرتے تھے۔ محرم کے ایام میں خان صاحب چپل نہیں پہنتے تھے۔

درگاہ فاطمان میں ایک کنویں کے قریب چٹائی بچھا کر شہنائی بجاتے اور محرم کے جلوس میں شرکت کرتے تھے۔ بسم اللہ خان جس مقام پر بیٹھ کر شہنائی بجاتے تھے اسی جگہ پر آج وہ مدفون ہیں۔

Last Updated : Apr 6, 2022, 2:42 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.