دارالعلوم دیوبند کی جانب سے جاری کردی فتویٰ میں مفتیان کرام نے کہا کہ مجبوری کی حالت میں مساجد میں الکوحل والے سینیٹائیزر کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نور محمد قاسمی نامی شخص کے سوال کا جواب دیتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام نے کہا ہے کہ 'آج کل مختلف دواﺅں، پرفیومس اور اسی طرح سینیٹائزر وغیرہ میں جو الکوحل استعمال کیاجاتا ہے وہ عام طور پر کھجور، انگور، کِشمِش وغیرہ سے تیار نہیں کیا جاتا بلکہ اس الکوحل کو گنے کے رس مختلف دالوں، سبزیوں، پیٹرول اور کوئلے وغیرہ سے تیار کیا جاتا ہے ان اشیاء میں بھی الکوحل کے لیے گنے کے رس کا زیادہ استعمال ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کا الکوحل حضرت امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ مسلک کے مطابق حرام و ناپاک نہیں ہے اور دور حاضر میں علاج و معالجہ کی ضرورت اور عموم بلوی کی وجہ سے محققین علمائے کرام نے الکوحل کے مسئلہ میں اصل اصول کے مطابق شیخین کے قول کو راجح قرار دیا ہے لہٰذا سینیٹائیزر میں اگرچہ الکوحل کی مقدار زیادہ ہو تب بھی ملک کی موجودہ صورتحال میں محکمہ صحت کی ہدایت کے مطابق وضو کے بعد ہاتھوں میں سینیٹائزر کا استعمال کرسکتے ہیں۔
اسی طرح مساجد کی فرش وغیرہ کو بھی حسب ضرورت سینیٹائز کیا جا سکتا ہے اس کے استعمال سے جسم، کپڑے یا مسجد کی فرش وغیرہ ناپاکی کے حکم میں شامل نہیں ہوگی۔
اس کے علاہ مفتیان کرام نے کہا کہ عام حالات میں ماسک لگا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن محکمہ صحت کی ہدایت کے مطابق نماز میں ماسک کے استعمال کی گنجائش ہے۔
اسی طرح عام حالات میں نماز باجماعت میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم ہے، لیکن موجودہ صورتحال کے پیش نظر ڈیڑھ یا دو فٹ فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہے۔
مفتیان کرام کا کہنا ہے کہ 8 جون سے مساجد میں مشروط طور نماز اجازت ہے لیکن دوسری یا تیسری جماعت سے اصل جماعت کی اہمیت متاثر ہوگی۔
دوسرا یہ کہ لوگوں کے دلوں سے جماعت ثانی کی کراہت و قباحت ختم ہوجائے گی اس لیے مساجد میں دوسری یا تیسری جماعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حسب نیت گھر کی جماعت میں بھی پورا ثواب ملے گا۔ اس لیے اگر مسجد کی جماعت نہ مل سکے تو حسب سابق گھروں میں ہی نماز باجماعت ادا کرلیں۔
یہی حکم جمعہ کی نماز کے لیے ہے اسی طرح مفتیان کرام کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کی جانب سے اگر مساجد سے صفیں ہٹانے اور نمازیوں کو گھروں سے ذاتی مصلیٰ لانے کی ہدایت ہو تو اس پر عمل کرنے میں شرعاً کچھ مضائقہ نہیں ہے۔