ETV Bharat / state

Hindu Journalists in Lucknow اردو صحافت کو لکھنؤ میں ہندو صحافیوں نے پروان چڑھایا

اردو صحافت نے بھارت کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ برطانوی سامراج کا تختہ پلٹنے میں بھی اردو صحافت نے اہم رول ادا کیا ہے۔ لکھنؤ کی اردو صحافت کی خدمت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں نے بھی کی۔ رام جی نے لکھنؤ سے اردو میں پہلا اخبار نکالا۔ جب کہ منشی نول کشور نے اودھ روزنامہ کی اشاعت کا آغاز کیا اور تقریباً 90 برس تک یہ روزنامہ شائع ہوتا رہا۔ Urdu Journalism in Lucknow

Hindu Journalists in Lucknow
Hindu Journalists in Lucknow
author img

By

Published : Sep 19, 2022, 2:06 PM IST

لکھنؤ، اترپردیش: اردو صحافت کو تقریباً دو سو برس سے زائد ہونے والے ہیں۔ ایسے میں اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کا اردو صحافت میں اہم کردار رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ سے اردو میں پہلا اخبار نکالنے والے رام جی ہوا کرتے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اردو میں اخبار نکالا۔ اس کے بعد منشی نول کشور نے روزنامہ اودھ کے نام سے اخبار شروع کیا جو نہ صرف اردو صحافت کے حوالے سے ایک اہم تاریخ کا باب ہے بلکہ برطانیہ کے سامراج کا تختہ پلٹنے میں بھی روزنامہ اودھ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اخبار تقریباً 90 برس تک شائع ہوتا رہا اور عوام میں خوب مقبول رہا۔ اس اخبار کے ایڈیٹرز سے ملازمین تک ہندو تھے جنہوں نے اردو کی جو مخلصانہ انداز میں خدمت کی وہ ناقابل فراموش ہے۔ Urdu Journalism was Nurtured by Hindu Journalists in Lucknow

اردو صحافت کو لکھنؤ میں ہندو صحافیوں نے پروان چڑھایا

یہ بھی پڑھیں:

ای ٹی وی بھارت نے لکھنؤ کے مخصوص صحافیوں سے لکھنؤ کا اردو صحافت میں کردار کے حوالے سے بات چیت کی۔ جس میں معروف و سینیئر صحافی ابراہیم علوی بتاتے ہیں کہ تحقیق کے مطابق لکھنؤ سے سب سے پہلے اردو اخبار نکالنے والے رام جی تھے۔ ان کے اخبار کا تحقیقی طور پر نام معلوم نہیں۔ تاہم تحقیق یہی ہے کہ لکھنؤ سے سب سے پہلا اردو اخبار نکالنے والے رام جی تھے۔ اس کے بعد منشی نول کشور نے اودھ روزنامہ کی اشاعت کا آغاز کیا اور تقریباً 90 برس تک یہ روزنامہ شائع ہوتا رہا۔ ابراہیم بتاتے ہیں جس خلوص اور محبت کے ساتھ منشی نول کشور نے اردو کی خدمت کی وہ ناقابل بیان ہے۔

لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے
لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے
ابراہیم علوی بتاتے ہیں کہ لکھنؤ میں اردو صحافت اس لیے پروان چڑھی کیونکہ یہاں پر اردو پڑھنے والوں کی تعداد اچھی تھی۔ یہاں پر نہ صرف اردو پڑھنے بلکہ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے افراد بھی موجود تھے اور اودھ نامہ اخبار میں کام کرنے والے صحافی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اودھ اخبار سمیت متعدد اردو روزنامچوں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ اردو اخبارات میں کام کرنے والے بیشتر افراد آزادی کے شیدائی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین دھار دار ہوتے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں لکھنؤ سے متعدد اردو اخبارات شائع ہو رہے ہیں تاہم معاشی تنگی کی وجہ سے اب اردو صحافت موت و زیست کی کشمکش میں ہے۔
لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے
لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے

معروف صحافی و سماجی کارکن زید احمد فاروقی بتاتے ہیں کی اردو اخبارات بنیادی طور پر انگریزوں کی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے میں صف اول میں شمار کیے جاتے تھے۔ تاہم تقسیم ہند کے بعد پاکستان نے اردو کو قومی زبان قرار دیا اور ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان بتایا گیا۔ یہیں سے اس کے زوال کا سب سے بڑا راستہ ہموار ہوا۔ اب موجودہ دور میں اردو داں طبقہ اگرچہ اردو کے نام پر پیٹ بھرتا ہے لیکن اس کی فروغ پر کام نہیں کررہا ہے۔ Hindu Journalists About Urdu Journalism

منشی نول کشور نے روزنامہ اودھ کے نام سے اخبار شروع کیا
منشی نول کشور نے روزنامہ اودھ کے نام سے اخبار شروع کیا

یہ بھی پڑھیں:

زید احمد فاروقی بتاتے ہیں کہ لکھنؤ میں منشی نول کشور کا اردو صحافت میں اہم کردار ہے۔ ان کے نام سے اردو اکیڈمی آج بھی صحافتی میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے افراد کو ایوارڈ دیتی ہے۔ ان کے پریس کا نام گیتا پریس کے نام میں تبدیل ہو چکا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ منشی نول کشور نے مذہبی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے چھاپہ خانہ میں کوئی بھی شخص بغیر وضو کے داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ 880 میں سب سے پہلے انہوں نے پرنٹنگ مشین لائے، جس سے اسلامی علوم کی سبھی کتابیں شائع ہوتی تھی۔ جن میں قرآن اور حدیث کی متعدد کتابوں کی اشاعت بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی پورے احترام کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اشاعت ہوتی تھی۔ آج بھی لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے۔ تاہم اردو کی کتابوں کی اشاعت کم ہوگئی ہے۔

لکھنؤ، اترپردیش: اردو صحافت کو تقریباً دو سو برس سے زائد ہونے والے ہیں۔ ایسے میں اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کا اردو صحافت میں اہم کردار رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ سے اردو میں پہلا اخبار نکالنے والے رام جی ہوا کرتے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اردو میں اخبار نکالا۔ اس کے بعد منشی نول کشور نے روزنامہ اودھ کے نام سے اخبار شروع کیا جو نہ صرف اردو صحافت کے حوالے سے ایک اہم تاریخ کا باب ہے بلکہ برطانیہ کے سامراج کا تختہ پلٹنے میں بھی روزنامہ اودھ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اخبار تقریباً 90 برس تک شائع ہوتا رہا اور عوام میں خوب مقبول رہا۔ اس اخبار کے ایڈیٹرز سے ملازمین تک ہندو تھے جنہوں نے اردو کی جو مخلصانہ انداز میں خدمت کی وہ ناقابل فراموش ہے۔ Urdu Journalism was Nurtured by Hindu Journalists in Lucknow

اردو صحافت کو لکھنؤ میں ہندو صحافیوں نے پروان چڑھایا

یہ بھی پڑھیں:

ای ٹی وی بھارت نے لکھنؤ کے مخصوص صحافیوں سے لکھنؤ کا اردو صحافت میں کردار کے حوالے سے بات چیت کی۔ جس میں معروف و سینیئر صحافی ابراہیم علوی بتاتے ہیں کہ تحقیق کے مطابق لکھنؤ سے سب سے پہلے اردو اخبار نکالنے والے رام جی تھے۔ ان کے اخبار کا تحقیقی طور پر نام معلوم نہیں۔ تاہم تحقیق یہی ہے کہ لکھنؤ سے سب سے پہلا اردو اخبار نکالنے والے رام جی تھے۔ اس کے بعد منشی نول کشور نے اودھ روزنامہ کی اشاعت کا آغاز کیا اور تقریباً 90 برس تک یہ روزنامہ شائع ہوتا رہا۔ ابراہیم بتاتے ہیں جس خلوص اور محبت کے ساتھ منشی نول کشور نے اردو کی خدمت کی وہ ناقابل بیان ہے۔

لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے
لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے
ابراہیم علوی بتاتے ہیں کہ لکھنؤ میں اردو صحافت اس لیے پروان چڑھی کیونکہ یہاں پر اردو پڑھنے والوں کی تعداد اچھی تھی۔ یہاں پر نہ صرف اردو پڑھنے بلکہ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے افراد بھی موجود تھے اور اودھ نامہ اخبار میں کام کرنے والے صحافی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اودھ اخبار سمیت متعدد اردو روزنامچوں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ اردو اخبارات میں کام کرنے والے بیشتر افراد آزادی کے شیدائی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین دھار دار ہوتے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں لکھنؤ سے متعدد اردو اخبارات شائع ہو رہے ہیں تاہم معاشی تنگی کی وجہ سے اب اردو صحافت موت و زیست کی کشمکش میں ہے۔
لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے
لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے

معروف صحافی و سماجی کارکن زید احمد فاروقی بتاتے ہیں کی اردو اخبارات بنیادی طور پر انگریزوں کی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے میں صف اول میں شمار کیے جاتے تھے۔ تاہم تقسیم ہند کے بعد پاکستان نے اردو کو قومی زبان قرار دیا اور ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان بتایا گیا۔ یہیں سے اس کے زوال کا سب سے بڑا راستہ ہموار ہوا۔ اب موجودہ دور میں اردو داں طبقہ اگرچہ اردو کے نام پر پیٹ بھرتا ہے لیکن اس کی فروغ پر کام نہیں کررہا ہے۔ Hindu Journalists About Urdu Journalism

منشی نول کشور نے روزنامہ اودھ کے نام سے اخبار شروع کیا
منشی نول کشور نے روزنامہ اودھ کے نام سے اخبار شروع کیا

یہ بھی پڑھیں:

زید احمد فاروقی بتاتے ہیں کہ لکھنؤ میں منشی نول کشور کا اردو صحافت میں اہم کردار ہے۔ ان کے نام سے اردو اکیڈمی آج بھی صحافتی میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے افراد کو ایوارڈ دیتی ہے۔ ان کے پریس کا نام گیتا پریس کے نام میں تبدیل ہو چکا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ منشی نول کشور نے مذہبی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے چھاپہ خانہ میں کوئی بھی شخص بغیر وضو کے داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ 880 میں سب سے پہلے انہوں نے پرنٹنگ مشین لائے، جس سے اسلامی علوم کی سبھی کتابیں شائع ہوتی تھی۔ جن میں قرآن اور حدیث کی متعدد کتابوں کی اشاعت بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی پورے احترام کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اشاعت ہوتی تھی۔ آج بھی لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں منشی نول کشور کا پریس موجود ہے۔ تاہم اردو کی کتابوں کی اشاعت کم ہوگئی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.