علی گڑھ: گذشتہ ماہ 22 جون کا ایک ویڈیو کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سلیمان ہال کی بتا کر وائرل کیا گیا تھا، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک لڑکا جس کا نام راہل عرف فرحان دوسرے لڑکے آکاش کو بیلٹ سے مار رہا ہے۔ اس کے بارے میں ہندو نواز لیڈران کا الزام ہے کہ ''علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلم طلباء ہندو طلبہ پر ظلم زیادتی کرتے ہیں، ان کو بے رحمی سے مارتے ہیں اور ان کو پریشان کرتے ہیں، جو وائرل ویڈیو سے ثابت ہو رہا ہے۔''
یونیورسٹی پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی کا کہنا ہے کہ ابھی تک کی جانچ میں یہ ثابت نہیں ہو پایا ہے کہ یہ ویڈیو اے ایم یو کا ہے اور لڑائی میں شامل لڑکے اے ایم یو کے طلبہ ہیں۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے تو ہم یونیورسٹی قانون کے مطابق کاروائی کریں گے اور ہم اس ویڈیو کی تفتیش کیلئے پولیس کی پوری مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سرکل آفیسر (سی او) اشوک کمار کا کہنا ہے کہ یہ پرانا ویڈیو ہے جس میں آکاش اور راہل کے درمیان کسی ہوٹل کو لے کر لڑائی ہوئی تھی۔ اس کی اطلاع 22 جون کو تھانہ کوارسی میں دی گئی تھی جس کے بعد ماحول خراب کرنے کے تحت راہل عرف فرحان کو دفعہ 151 کے تحت جیل بھیجا گیا تھا اور وائرل ویڈیو کی جانچ کی جا رہی ہے۔
ایک ہندی چینل پر اس ویڈیو کے بارے بھی یونیورسٹی پر الزام عائد کرتے ہوئے دکھایا گیا کہ اے ایم یو میں مسلم طلباء ہندو طالب علم کی بے رحمی کے ساتھ بیلٹ سے پیٹائی کر رہے ہیں جس کے بعد تقریبا درجن بھر ہندو نواز لیڈران نے پولیس کی موجودگی میں یونیورسٹی انتظامیہ بلاک کے سامنے پہچ کر زبردست نعرے بازی کی اور متنازع بیانات جاری کرتے ہوئے ماحول خراب کیا۔
ہندووادی لیڈران کی نعرے بازی ہنگامے کو دیکھ کر اے ایم یو طلباء باب سید گیٹ پر پہنچے جس کے بعد ہندووادی لیڈران چلے گئے۔ علیگڑھ ایس پی سٹی کلدیپ سنگھ گناوت کے مطابق راہل عرف فرحان کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور وائرل ویڈیو کی جانچ کی جا رہی ہے۔
مذکورہ معاملے پر اے ایم یو طلباء یونین کے سابق صدر فیض الحسن نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا اے ایم یو روز اول سے ہی ہندو مسلم بھائی چارے کی بہترین مثال ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو وہ زیر تعلیم غیر مسلم طلباء سے آکر پوچھ گچھ کر سکتے ہیں اور گذشتہ روز جس طرح سماج دشمن عناصر ہندو نواز لیڈران نے یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہو کر مذہبی نعرے بازی کی اور متنازع بیانات جاری کر کے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی ان کے خلاف علی گڑھ انتظامیہ کو کارروائی کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگر اے ایم یو طلباء بھی ان کے خلاف نعرے بازی کرتے اور ان کو جواب دیتے تو ماحول خراب ہو سکتا تھا جس کی ذمہ داری علی گڑھ انتظامیہ پر ہوتی۔
فیض الحسن نے مزید کہا اکثر انتخابات سے قبل موجودہ حکومت اور ہندو نواز لیڈران مسلم تعلیمی اداروں کو نشانہ بناکر ہندو مسلم تنازع کھڑا کرنا چاہتے ہیں، آپس میں لڑوانا چاہتے ہیں اور اگر وائرل ویڈیو کے ذریعے لگائے گئے الزامات درست ہیں تو اس وقت مظلوم کی جانب سے ایف آئی آر کیوں نہیں درج کروائی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: UGC HRDC اکیڈمک ایڈمنسٹریٹرز کے لئے تربیتی پروگرام
مختصر یہ کہ علی گڑھ کے ہندووادی لیڈران وقتا فوقتا اور بالخصوص انتخابات سے قبل علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اے ایم یو پر الزام لگاکر ہندو مسلم کی گندی سیاست کرتے رہتے ہیں۔