ETV Bharat / state

سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگے والے بے روزگار

لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتیں پورے شان و شوکت سے سیاحوں کے سیر و تفریح کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن لاک ڈاؤن ایسا لگا کہ یہاں کے ملازمین کے ساتھ ساتھ تانگہ چلانے والے بے روزگار ہو گئے ہیں۔

سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار
سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار
author img

By

Published : Jun 12, 2021, 12:12 PM IST

اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتیں پورے شان و شوکت سے آج بھی سیاحوں کی پہلی پسند بنی ہوئی ہیں۔ وبائی امراض کو دیکھتے ہوئے تمام سیاحتی مقامات پر تالا لگا دیا گیا، جس سے گھومنے پھرنے والے لوگوں کا آنا جانا بند ہوگیا۔

سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار

اگر نوابی دور کے قدیم عمارتوں کی بات کریں تو یہاں پر بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ، شاہ نجف، بھول بھلیاں، رومی دروازہ، پکچر گیلری وغیرہ کئی ایسی عمارتیں ہیں، جہاں پر روزانہ کثیر تعداد میں ملک کے مختلف خطوں سے سیّاح سیروتفریح کے لئے آتے تھے لیکن اب کورونا نے لاک ڈاؤن لگا دیا۔

سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار
سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار

اس ضمن میں گھوڑا گاڑی میں سیّاحوں کو گھمانے والے شکیل احمد نے بتایا کہ گھوڑا گاڑی لکھنؤ کی شان ہے۔ سیاح یہاں پر اپنی گاڑیوں سے آتے ہیں اور انہیں کھڑی کر کے ہمارے ساتھ تانگے میں سوار ہو کر نوابی دور کی قدیم عمارتوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس نے ہمارا روزگار چھین لیا، اب فیملی کا پیٹ پالنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

شکیل احمد نے کہا کہ ہمیں صرف راشن مل رہا ہے، اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے غریبوں کو ملنے والی ماہانہ ایک ہزار روپے کی مالی امداد بھی نہیں ملی۔ بمشکل 100-200 روپے کی آمدنی ہوپاتی ہے، اس پر گھر والوں کا پیٹ بھریں یا گھوڑے کا۔ ضلع انتظامیہ یا حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ہوئی۔

دوسری جانب جلال الدین بھی لمبے عرصے سے تانگہ چلانے کا کام کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال بھی کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ تھا اور اس بار بھی وہی حال ہے۔ ہم لوگ لاک ڈاؤن ہونے سے بے روزگار ہو گئے ہیں۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں، دوسرا کوئی کام کر نہیں سکتے لیکن گھوڑے کو گھاس اور چنا کھلانا ضروری ہوتا ہے۔

سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار
سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار

انہوں نے کہا کہ اس میں ہر روز دو سے ڈھائی سو روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ ہمارے خود کھانے کے لئے پیسے نہیں بچے لہذا گھوڑے کو دریا کے کنارے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس والے ایسا کرنے پر پریشان کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے پہلے 30 شادیوں میں گھوڑا گاڑی کا آرڈر تھا لیکن صرف تین میں جانے کا موقع ملا، اس کے بعد لاک ڈاؤن کے سبب سبھی آرڈر تین سال ہوگئے تھے۔

جلال الدین نے کہا کہ حکومت سے ہمیں کوئی امید نہیں ہے کیوں کہ نہ تو گزشتہ سال کوئی مدد ہوئی اور نہ ہی اس بار ہوئی ہے۔

انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمارا پیٹ کیا بھرے گی؟ پہلے وہ اپنا پیٹ بھر لے۔ جلال الدین نے بتایا کہ جب تک امام باڑہ گھومنے پھرنے کے لئے نہیں کھلتا، تب تک ہمارے حالات بہتر نہیں ہونے والے۔ ابھی بہت کم لوگ گھومنے آرہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری پورے دن میں بمشکل سو دو سو روپے کی آمدنی ہو پاتی ہے۔

جب تک سیاحتی مقامات پر تالا لگا ہے، تب تک حالات بہتر ہونے والے نہیں ہیں۔ضلع انتظامیہ نے پہلے ہی بازار دکان کھولنے کا اعلان کر دیا تھا۔

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا صرف سیاحتی مقامات کھولنے پر کورونا کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا؟

اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتیں پورے شان و شوکت سے آج بھی سیاحوں کی پہلی پسند بنی ہوئی ہیں۔ وبائی امراض کو دیکھتے ہوئے تمام سیاحتی مقامات پر تالا لگا دیا گیا، جس سے گھومنے پھرنے والے لوگوں کا آنا جانا بند ہوگیا۔

سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار

اگر نوابی دور کے قدیم عمارتوں کی بات کریں تو یہاں پر بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ، شاہ نجف، بھول بھلیاں، رومی دروازہ، پکچر گیلری وغیرہ کئی ایسی عمارتیں ہیں، جہاں پر روزانہ کثیر تعداد میں ملک کے مختلف خطوں سے سیّاح سیروتفریح کے لئے آتے تھے لیکن اب کورونا نے لاک ڈاؤن لگا دیا۔

سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار
سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار

اس ضمن میں گھوڑا گاڑی میں سیّاحوں کو گھمانے والے شکیل احمد نے بتایا کہ گھوڑا گاڑی لکھنؤ کی شان ہے۔ سیاح یہاں پر اپنی گاڑیوں سے آتے ہیں اور انہیں کھڑی کر کے ہمارے ساتھ تانگے میں سوار ہو کر نوابی دور کی قدیم عمارتوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس نے ہمارا روزگار چھین لیا، اب فیملی کا پیٹ پالنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

شکیل احمد نے کہا کہ ہمیں صرف راشن مل رہا ہے، اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے غریبوں کو ملنے والی ماہانہ ایک ہزار روپے کی مالی امداد بھی نہیں ملی۔ بمشکل 100-200 روپے کی آمدنی ہوپاتی ہے، اس پر گھر والوں کا پیٹ بھریں یا گھوڑے کا۔ ضلع انتظامیہ یا حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ہوئی۔

دوسری جانب جلال الدین بھی لمبے عرصے سے تانگہ چلانے کا کام کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال بھی کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ تھا اور اس بار بھی وہی حال ہے۔ ہم لوگ لاک ڈاؤن ہونے سے بے روزگار ہو گئے ہیں۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں، دوسرا کوئی کام کر نہیں سکتے لیکن گھوڑے کو گھاس اور چنا کھلانا ضروری ہوتا ہے۔

سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار
سیاحتی مقامات بند ہونے سے تانگہ والاے بے روزگار

انہوں نے کہا کہ اس میں ہر روز دو سے ڈھائی سو روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ ہمارے خود کھانے کے لئے پیسے نہیں بچے لہذا گھوڑے کو دریا کے کنارے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس والے ایسا کرنے پر پریشان کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے پہلے 30 شادیوں میں گھوڑا گاڑی کا آرڈر تھا لیکن صرف تین میں جانے کا موقع ملا، اس کے بعد لاک ڈاؤن کے سبب سبھی آرڈر تین سال ہوگئے تھے۔

جلال الدین نے کہا کہ حکومت سے ہمیں کوئی امید نہیں ہے کیوں کہ نہ تو گزشتہ سال کوئی مدد ہوئی اور نہ ہی اس بار ہوئی ہے۔

انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمارا پیٹ کیا بھرے گی؟ پہلے وہ اپنا پیٹ بھر لے۔ جلال الدین نے بتایا کہ جب تک امام باڑہ گھومنے پھرنے کے لئے نہیں کھلتا، تب تک ہمارے حالات بہتر نہیں ہونے والے۔ ابھی بہت کم لوگ گھومنے آرہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری پورے دن میں بمشکل سو دو سو روپے کی آمدنی ہو پاتی ہے۔

جب تک سیاحتی مقامات پر تالا لگا ہے، تب تک حالات بہتر ہونے والے نہیں ہیں۔ضلع انتظامیہ نے پہلے ہی بازار دکان کھولنے کا اعلان کر دیا تھا۔

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا صرف سیاحتی مقامات کھولنے پر کورونا کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا؟

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.