اتر پردیش کے رامپور میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف گذشتہ 21 دسمبر کو منعقد ہونے والے احتجاجی مظاہرے کو روکے جانے کے بعد رامپور میں حالات کشیدہ ہوگئے تھے، جس میں ایک شخص کی جان بھی چلی گئی تھی اور متعدد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
دراصل ملی تنظیموں کی جانب سے متحدہ طور پر رامپور کی عیدگاہ میدان میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ رکھا گیا تھا، جس کی اجازت انتظامیہ سے لے لی گئی تھی، لیکن عین وقت پر ضلع انتظامیہ نے اس مظاہرے کو رد کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
مظاہرہ کو روکنے کے لئے انتظامیہ نے ہر ممکن تیاری کر تے ہوئے عید گاہ کے تمام دروازے کو بند کرکے بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کر دئے تھے،اور مظاہرے کی قیادت کرنے والے ذمہ داران کو ان کے گھروں پر ہی نظر بند کر دیا تھا۔
مظاہرین کو روکنے کے لئے شہر بھر میں بڑی تعداد میں ہتھیار بند پولیس فورس تعینات کر گئی تھی، عیدگاہ جانے والے تمام راستوں کو بیریکیٹ لگا کر پولیس نے سیل کر دیا تھا۔
جیسے ہی مظاہرین عید گاہ کی جانب بڑھنا شروع ہوئے، پولیس نے ان پر طاقت کا استعمال کرکے روکنا شروع کر دیا جس سے دونوں جانب سے کافی دیر تک پتھر بازی ہوئی، پولیس نے آنسو گیس کے گولے بھی داگے، اس درمیان گولی لگنے سے ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے ۔
واقعے کے بعد پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر ویڈیوز کی مدد سے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
جس کے بعد علماء نے مظاہرین کی گرفتاری پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کلکٹر سمیت ضلع کے اعلی افسران سے میٹنگ کی اور گرفتاریوں پر فوری روک لگانے اور گرفتار افراد کی رہائی کی مانگ کی ۔
واضح رہے کہ ضلع انتظامیہ نے میٹنگ میں علماء کو یقین دہانی کرائی تھی کہ کسی کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے باوجود بھی گرفتاریاں جاری ہے ۔
آج علماء نے افسران سے اس متعلق میٹنگ میں اپنی بات رکھی تو پولیس افسران کا کہنا تھا کہ جو بے قصور ہیں ان کو رہا کر دیا جائے گا لیکن قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا۔
اس درمیان جب ایڈیشنل ایس پی نے میٹنگ میں مظاہرین کے متعلق تلخ انداز میں بات کی جس سے درگاہ کے حافظ شاہ جمال اللہ سجادہ نشین فرحت علی جمالی نے ناراض ہوکر میٹنگ سے باہر آگئے، انہوں نے کہا کہ قصوروار تو ہم ہیں لہاذا آپ ہمیں گرفتار کریں، مظاہرین کو نہیں