سمینار اور مقالات پر مشتمل کتاب 'ٹرپل طلاق ان اسلام، جوڈیشیئری، سیاسی اینڈ میڈیا' کی ترتیب و تدوین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) شعبہ اسلامی علوم کے پروفیسر عبید اللہ فہد، ڈاکٹر اعجاز احمد اور ڈاکٹر بلال احمد نے مشترکہ طور پر انجام دی ہے۔ اس کتاب کا اجراء وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کیا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) شعبہ اسلامی علوم کے پروفیسر عبید اللہ فہد نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ، 'شریعت تو یہ کہتی ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو جائے اور ایک ہی مجلس میں غصے میں آکر یا کسی اور وجہ سے وہ تین طلاق دے تو اسے ایک ہی طلاق شمار کرنا چاہیے، صحیح موقف یہی ہے اور اس کتاب میں دلائل کے ساتھ ہم نے یہ ثابت کیا ہے۔'
انہوں ںے بتایا کہ، 'صحابہ کرام کے عمل کو ہم نے نقل کیا ہے، حوالوں کے ساتھ مستند طریقہ سے یہ بات کہی ہے جس پر مسلمانوں کو عمل کرنا چاہیے۔'
پروفیسر عبد اللہ نے مزید کہا کہ، 'لیکن افسوس یہ ہے کہ اس ملک میں ایک خالص مسئلے کو حکومت نے بھی سیاستدانوں نے بھی اور اس سے بھی بڑھ کر میڈیا نے بھی ایک شرمناک کھیل کھیلا۔ خالص ایک مسئلہ کو بہت بڑا سیاسی مسئلہ بنا کر امت کے ایک بڑے طبقہ کو یہاں کے اقلیت کے طبقے کو ہراساں کرنے کی خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جو بہرحال قابل تحسین نہیں ہے۔'
انہوں نے کہا کہ، 'جوڈیشری کے فیصلے کے بعد جو قانون بنا ہے وہ قانون شریعت کے مسلم پرسنل لاء کا جو حق ہے، اس کی صحیح طریقے سے ترجمانی نہیں ہوتی۔'
پروفیسر عبید اللہ نے کہا کہ، 'ایک مجلس میں تین طلاق ہمارے علماء نے بھی کہا ہے اور لکھا ہے کہ وہ غلط ہے بدعت ہے اور اسے غلط ہی مانا جانا چاہئے لیکن اس پر جو سزائیں تجویز کی گئیں ہیں کریمنل لاء کے تحت اس شوہر کو جو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا ہے، ہمارے قانون میں اس کی گنجائش نہیں ہے اور اس کی کوئی افادیت بھی نہیں ہے۔
اس سے طلاق شدہ خاتون کے مسئلے اور زیادہ پیچیدہ ہو جائیں گے اور جو خاتون متعلقہ ہے اس کو نان نفقہ کا سب سے بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ اگر مرد جیل میں ہے تو اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری کون ادا کرے گا اور اس سے طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو سکے گی۔
مزید پڑھیں:
مئو: چوری چورا کی صد سالہ تقریب کا انعقاد
صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس پر نظرثانی خود کرنی چاہیے اور بجائے حنفی فرقہ کی ترجمانی کرنےکے اسلام کی، سنت کی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی ترجمانی کرنی چاہیے اور اسی موقف کو دوسروں کوسامنے رکھنا چاہیے۔'