ریاست اترپردیش کے شہر بریلی کے بیٹے خان بہادر خان اپنے نام کی طرز پر بہادری اور جاں بازی کے بہترین مثال تھے۔ وہ سنہ 1857 کے انقلاب کے ہیرو تھے۔ اُن کی پیدائش سنہ 1791 میں ایک نواب خاندان میں ہوئی تھی۔ وہ روہیلہ سردار حافظ رحمت خان کے پوتے تھے۔ میرٹھ میں 10 مئی سنہ 1857 کو انقلاب کا نعرہ بلند ہوا اور اِس کی اطلاع 14 مئی کو بریلی پہنچی تو یہاں بھی تیاریاں تیز ہو گئیں۔ 31 مئی کو صوبہ دار بخت خاں کی قیادت میں خان بہادر خان اور اُن کے سپاہیوں نے برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔
وقت کے مجسٹریٹ، سِوِل سرجنٹ، جیل سُپرنٹینڈنٹ اور بریلی کالج کے پرنسپل سی بک کو انقلابیوں نے قتل کر دیا۔ شام پانچ بجے تک بریلی ڈویژن پر انقلابیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ ایک جون کو ان انقلابیوں نے ایک فاتح جلوس نکالا۔ جلوس کے کوتوالی پہنچے پر کثیر تعداد میں بریلی کے شہریوں نے نواب خان بہادر خان کی تاج پوشی کرکے اُنہیں نواب منتخب کر دیا تھا۔
خاص بات یہ ہے کہ اُنہیں بیڑیوں سمیت دفن کیا گیا تھا۔ آج بھی اُن کی قبر کے سرہانہ پر بیڑیاں صاف نظر آتی ہیں۔ جس سے لوگ اُنکی قبر پر جمع نہ ہوں اور انقلاب میں مزید جوش پیدا ہو۔
مزید پڑھیں: اترپردیش: تبدیلی مذہب بل اسمبلی میں منظور
نواب خان بہادر خان کی جاں بازی کے یوں تو بہت سے قصّے ہیں۔ لیکن اُنکے پھانسی کے تختہ پر کھڑے ہونے کے دوران کا ایک تاریخی واقعہ ہے، جو آج بھی اُنکے قصّہ کا مطالعہ کرنے والوں کے خون میں آتش فشاں جوش بھر دیتا ہے۔ جب اُنہیں پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا، تب اُنہوں نے برطانوی حکومت کے سپہ سالاروں کی جانب خوں ریز آنکھوں سے دیکھا اور بلند آواز میں کہا کہ 'میں نے ایک سو سے زیادہ ہندوستانیوں کو غلام بناکر ظلم و زیادتی کرنے والے، ہندوستانیوں کے دشمن انگریزوں کو موت کی نیند سُلایا ہے۔ میں نے ایسا کرکے نیک کام کیا ہے۔ یہ میرا آخری دن ہے۔ ایک دن اس حکومت کا بھی ملک میں آخری دن ہوگا۔ میں رہوں، نہ رہوں۔ میرے ملک کے باشندے ایک دن آزاد ہندوستان کا سویرا ضرور دیکھیں گے۔ تمہاری پھانسی کے پھندے کم پڑ جائیں گے، لیکن ہندوستانیوں کے گلے کم نہیں پڑیں گے'۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خان بہادر خان کی پھانسی کے بعد بریلی میں ہزارون نوجوان جنگِ آزادی کے انقلاب میں شامل ہوکر برطانوی حکومت کے خلاف باغی ہوگئے۔