عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے تقریباً نو ماہ تک تجارتی مراکز بند رہے لیکن لاک ڈاؤن کے بعد اب جہاں کاروباری مراکز اپنے معمولات پر واپس لوٹ رہے ہیں، وہیں بنارس کے بنکر ابھی بھی کاروبار صحیح طریقے سے شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
دراصل لاک ڈاؤن سے قبل بنارس کی مختلف مصنوعات ملک کے مختلف علاقوں سمیت بیرون ممالک بھی بھیجی جاتی تھیں۔ اس کا سیدھا فائدہ بنارس کے بنکروں کو ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ بنارس میں مختلف باریک ریشمی دھاگوں سے بنکاری کا کام ہوتا ہے جس کی عرب ممالک میں خوب مقبولیت ہے۔
اپنے پروڈکٹس دبئی ایکسپورٹ کرنے والے بنکر ابو الحسن نے ای ٹی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاک ڈاؤن سے قبل ریشم کا بیڈ شیٹ، پردہ اور کشن کور جیسی اشیاء کا اسٹاک تیار کیا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھیج نہ سکے۔
انہوں نے بتایا کہ لاکھوں کا مال تیار رکھا ہے لیکن اب دوبارہ عرب ممالک سمیت دبئی بھیجا جا سکے گا یا نہیں، ابھی تک کوئی امید نہیں ہے۔
ابوالحسن جیسے بنارس کے متعدد بنکرز ہیں جن کا ابھی تک کاروبار شروع نہیں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں کے نقصان ہونے سے ان بنکروں اور ان کے بچوں کا مستقبل خطرے میں نظر آرہا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کی پہل کی وجہ سے بنارس سے متعدد اشیاء عرب ممالک پہنچنا شروع ہوئی ہیں جس سے امید کی کرن جگی ہے۔ حالیہ دنوں میں بنارس سے مٹر، سبزیاں اور آم بھیجے گئے تھے، جس کی وجہ سے یہاں کے کسان خوش ہوئے لیکن بنارس کا روایتی اور سب سے قدیم کاروبار بنکاری، قدیم زمانے سے عرب ممالک پر اپنا سکہ جمائے ہوئے تھا لیکن لاک ڈاؤن نے اسے شدید طور سے متاثر کیا اور اب یہ کاروبار تقریباً ٹھپ ہے۔
بنکر اور اس پیشے سے جڑے کاروباری حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سرکار اس پر توجہ دے اور ان کا کاروبار دوبارہ بحال ہو۔