بندروں کے حملوں سے اب تک کئی بچے اور خواتین زخمی بھی ہو گئے ہیں۔ متعدد بار لوگ شکایات بھی کر چکے ہیں لیکن انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
کچھ عرصہ سے رامپور کے رہائشی علاقوں میں بندروں کا خوف کافی بڑھ گیا ہے۔ بندر ہر روز جنگلوں سے درختوں اور چھتوں پر چھلانگ لگاتے ہوئے رہائشی مکانوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور وہاں کام کر رہی خواتین و کھیلتے ہوئے بچوں پر حملہ بھی کر دیتے ہیں۔ گھیر قلندر خان علاقے میں رہنے والے عثمان بتاتے ہیں کہ بندروں نے ان کے گھر میں اب تک 10 سے 15 ہزار روپے تک کا نقصان کر دیا ہے۔ بندروں کی وجہ سے گھر میں لوہے کا جال لگانا پڑرہا ہے۔
وہیں اسی محلہ کے باشندہ بھورا بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں بندروں کے خوف کی وجہ سے کئی روز سے روٹی بھی نہیں بنی ہے۔ اگر گھر میں روٹی بنائی جاتی ہے تو بندروں کا اتنا جھنڈ آجاتا ہے کہ گھر میں ایک بھی روٹی نہیں بچتی ہے۔ اس لیے وہ ہوٹل کی روٹی کھانے پر اکتفا کر رہے ہیں۔
اسی طرح اپنی روداد سناتے ہوئے جاوید کہتے ہیں کہ وہ بندروں سے بہت پریشان ہو گئے ہیں۔ ان کے بچے جب چھت پر کھیلنے کے لیے جاتے ہیں تو بندر ان پر حملہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بندروں کے حملہ سے کئی بچے بری زخمی بھی ہو گئے ہیں۔
وہیں جب ہم نے مرادآباد ڈویژن کے کمشنر آنجنئے کمار سنگھ سے سوالات کر کے رہائشی علاقوں میں بندروں سے نجات کے لئے انتظامیہ کی کارروائیوں سے متعلق بات کی تو انہوں نے ہمیں کچھ یوں جواب دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ درختوں کی کٹائی پر عوام کو بیدار ہونا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ درختوں کی کٹائی کی ذمہ دار کیا صرف عوام ہے؟ کیا جنگلوں سے درخت بالکل ہی ختم ہو چکے ہیں؟ جس سے بندروں کو اب رہائشی علاقوں میں پہنچنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ وہیں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب انتظامیہ کی کوئی ذمہ داری نہیں بچی ہے؟ کیا بندروں سے نجات کے لئے اب عوام کو پہلے درخت لگانے ہوں گے؟
بہرحال اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ انتظامی افسران اپنی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے عوام کو بندروں کے خوف سے کب نجات دلائیں گے۔