آج سے تقریباً 20 برس قبل لکھنؤ کے قیصر باغ علاقے رہنے والے کاتب عبدالرحمن اطراف کے اضلاع میں فن کتابت کے لیے منفرد شناخت قائم کے حامل تھے، کاتب عبدالرحمن قیصر باغ کی مچھلی محال کی جامع مسجد میں بطور امام خدمت انجام دے رہے تھے، اس کے بعد انہوں نے فن کتابت میں مہارت حاصل کی اور اسی کو اپنا پیشہ بنایا۔ کرایہ کے دو کمرے میں انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تھا اور خوب شہرت حاصل کی لیکن موجودہ دور میں معاشی حالات سے دو چار ہیں،وہ بتاتے ہیں کہ ابتدائی زمانے میں کتابت کے شائقین کا جم غفیر ہوا کرتا تھا کتابت سیکھنے کے لئے کے لئے قطاریں لگتی تھیں، یہ دور کتابت کے عروج کا تھا۔
The economic condition of the calligraphers of Lucknow worsened
کاتب عبدالرحمن بنیادی طور پر دینی ادیرے کے اشتہارات، بینر، رجسٹر، اور چندے کے رسید کام کیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے نہ صرف لکھنؤ کے اطراف کے اضلاع بلکہ نیپال سے بھی لوگ اس کام کے لیے لکھنو کا رخ کرتے تھے، لیکن کمپیوٹر آنے کے بعد اس فن پر خاص اثر پڑا ہے اب حالات یہ ہیں کہ مہینہ گزر جاتا ہے کام نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ فن کتابت کو زندہ رکھنے کے لیے اگر حکومت نے بروقت قدم نہیں اٹھایا تو اس فن کو نئی نسل تاریخ کی کتابوں میں ہی پڑھے گی، موجودہ دور میں اگرچہ کچھ طلباء و طالبات فن خطابت کے شوقین ہیں تاہم روزانہ مشق نہ ہونے کی بنیاد پر وہ بھی اس فن کو بھول رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کے ذریعے اگرچہ کچھ کوچنگ سینٹر چلتے ہیں لیکن وہ بھی خاتمے کے دہانے پر ہیں،انہوں نے بتایا کہ فن کتابت کی دیگر ممالک میں آج بھی وہی اہمت ہے۔ ایران عراق سمیت عرب ممالک میں اسے خوب پسند کیا جاتا ہے۔ہندوستان میں بھی فن کتابت کے شواقین افراد اب بھی موجود ہیں، تاہم ان کی تعداد بہت کم ہے۔ قدیم زمانے میں اخبارات و دیگر عدالتی کاروائی کتابت کے ذریعے ہی کی جاتی تھی، خوشنویسی نہ صرف نگاہوں کو دیکھنے میں اچھا لگتا ہے بلکہ یہ فن روزگار کا بھی اہم ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔
مزید پڑھیں:Last Urdu Katib Sits Alone in Urdu Bazaar: محمد غالب، اردو بازار کے آخری کاتب
صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی اس کے لیے ایک مہم چلائی جائے اور دیگر کام کرایا جائے تاکہ اس فن کو زندہ رکھنے میں مدد مل سکے، انہوں نے کہا کہ کہ کتابت کا پیشہ بہتر ہے مگر کام نہ ہونے کی وجہ سے حالات سے دوچار ہیں۔