نوئیڈا: یومیہ اجرت پر کام کرتے ہوئے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرنے والے یہ مزدور وہ طبقہ ہیں جن کی محنت نے سماج کی بنیادیں مستحکم کی ہیں۔ ان کی محنت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور یہی وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ لا پرواہی کا شکار ہو ہے اور اسی طبقہ کی جانب کسی نے بھی توجہ نہیں دی یا اگر کسی نے توجہ دی بھی ہے تو اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دی جانی چاہیے تھی۔ اترپردیش کے نوئیڈا کے سیکٹر51 میٹرو اسٹیشن کے کاریگروں کے ساتھ وی آئی پی جیسے سلوک کیا گیا۔انہیں خاص رتبہ سے نوازا گیا۔ کاریگری ریسٹورنٹ نے تمام کاریگروں کو یہ اعزاز بخشا۔
کاریگری کے ڈائریکٹر منیش شرما نے کہا کہ یہ کاریگر ہر روز کم سے کم ضروری وسائل کے ساتھ اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو امیر بنانا اگرچہ ناممکن ہے لیکن کم از کم ان کو ضروریات زندگی حاصل کرنے۔ خوشحال زندگی گزارنے میں مدد تو کر سکتے ہیں۔ پسماندہ اور بے سہارا لوگوں کی دیکھ بھال اور مدد کرنا ایک قابل تحسین عمل ہے۔لیکن کاریگری نے ایسا ہی کیا۔ کاریگری معروف شیف ہرپال سنگھ سکھی کا ایک ریستوراں ہے جو معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ ان کی ٹیم نے کاریگروں کو منانے اور انہیں وہ عزت دلانے کے لیے پہل کی جس کے وہ مستحق ہیں۔
نوئیڈا کے کاریگری ریسٹورنٹ نے نہ صرف محنتی کاریگروں کا احترام کیا بلکہ انہیں وہ خوشی بھی دی جس کی وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اکثر کمی محسوس کرتے ہیں۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کو ہینڈ آؤٹ دینے کے بجائے، مدد کا ہاتھ دینا ان کی مدد کرنے کا ایک آسان ترین طریقہ ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی واقعی ان کی پرواہ کرتا ہے اور جب کوئی انہیں اخلاقی مدد فراہم کرتا ہے۔حقیقی عاجزی اور احترام کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ ان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Fast Food is Dangerous فاسٹ فوڈ سے قبل از وقت ہی موت ہوجانے کا اندیشہ: ڈاکٹر کوثر عثمان
کاریگری کے ڈائریکٹر منیش شرما نے کہاکہ ہم نے حال ہی میں اپنے ریستوران میں تقریباً 40-50 کاریگروں کی میزبانی کی۔ غریبوں سے ملنا میرے لیے خوشی کی بات تھی کیونکہ میں نے ان کی زندگی میں ہونے والے واقعات کا علم ہوا۔ لفظ کاریگری کا کا مطلب کاریگری یا فنکاری ہے جو تمام کاریگروں کے لیے ایک اعزاز ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک شاندار تجربہ تھا کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ ہم میں سے اکثر زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں شکایت کرتے ہیں لیکن ہمیں ان سے سبق لینا چاہیے کہ یہ کس کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جیسے ہی اس کا احساس ہو جائے گا لوگ خود اپنی زندگی سے مطمئن ہو جائیں گے۔