علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ تاریخ سے ریٹائرڈ پروفیسر معروف مورخ عرفان حبیب نے بابری مسجد شہادت کی 30 ویں برسی پر کہا کہ بابری مسجد کی شہادت تاریخ میں ایک بہت سیاہ واقعہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بابری مسجد کو ایک دم سے لوگوں نے شہید کردیا، یہ سب ایک منصوبہ بندی اور مقصد کے تحت ہوا جو اب تک چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے چھ دسمبر کے واقعہ کو تو برا بھلا بہت کہا لیکن فیصلہ مضحکہ خیز سنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسجد رہتی تو کیا سپریم کورٹ یہ فیصلہ سناتی کہ مسجد کو شہید کرکے مندر کی تعمیر کی جائے۔' Babri Masjid Demolition Anniversary
بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عرفان حبیب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا حکومت سے تو کوئی امید نہیں تھی سپریم کورٹ سے کچھ امیدیں تھی بھی۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں ججز نے متفقہ رائے سے ایک ایسا فیصلہ دیا جو تاریخ اور انصاف کے خلاف ہے۔' SC Judgment on Babri masjid Against Justice اس معاملے میں پروفیسر ندیم رضوی کہتے ہیں 'چھ دسمبر کو صرف مسجد منہدم نہیں کی گئی بلکہ بھارت کی تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی شروعات کی گئی۔ بھارت کو بدلے ہوئے تیس برس ہوگئے آج سے ٹھیک 30 برس پہلے چھ دسمبر سنہ 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے نہ صرف مغلوں کی نشانی بلکہ ملک کی وراثت ایودھیا میں قائم بابری مسجد کو منہدم کردیا، جس کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا کہ ملک میں ایک نئے بھارت کی بنیاد پڑ گئی ہو'۔اے ایم یو شعبہ تاریخ کے سابق صدر شعبہ پروفیسر علی ندیم رضوی نے کہا کہ 'بابری مسجد محض ایک مسجد ہی نہیں تھی وہ ایک تاریخ تھی کیوں کہ مسجدیں تو بھارت میں بہت ہیں اگر ان میں کچھ اور بھی ٹوٹ جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مندر بھی کئی بن جائیں اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات صرف مندر اور مسجد کی نہیں ہے بلکہ یہ بابری مسجد ایک قومی وراثت تھی، ایک تاریخی دور کی نشانی تھی'۔اتنا ہی نہیں انہوں نے کہا کہ 'یہ ایسی ایک وراثت تھی جو بتاتی تھی کہ اس دور میں جو آرکیٹکچر یعنی فن تعمیر کی کلا کیا تھی جس کی زندہ مثال کو منہدم کردیا گیا۔ مسجد مندر کے سوشے کو شعوری طور پر سنہ 1992 میں بتایا گیا، جبکہ اس سے قبل اس عمارت کو ہمیشہ ہی تاریخی عمارت کے طور پر جانا گیا تھا اور آج بھی مؤرخ اس عمارت کو بطور تاریخی عمارت ہی جانتے ہیں۔ پروفیسر علی ندیم رضوی نے کہاکہ گزشتہ 30 برسوں سے جو نیا بھارت ابھر کر آرہا ہے جہاں سب سے زیادہ اہمیت مذہب کو دی جارہی ہے، اگر اس نئے ہندوستان کی شروعات دیکھنی ہے تو آپ چھ دسمبر سنہ 1992 کو دیکھ سکتے ہیں۔'مؤرخیں بتاتے ہیں بابری مسجد کو سنہ 1528 میں تعمیر کرایا گیا تھا جو تین گنبدوں پر محیط تھا۔ اس عالی شان مسجد کو مغل شہنشاہ بابر کے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے تعمیر کرایا تھا، لیکن مسجد کی تین سو برس سے زیادہ دنوں بعد 27 مارچ سنہ 1932 کو گئوکشی کے نام پر ہندو انتہا پسندوں نے پہلی بار بابری مسجد کو نشانہ بناکر ہنگامہ کیا اور مسجد میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور آخرکار چھ دسمبر سنہ 1992 کو کارسیوکوں نے بابری مسجد کو منہدم کردیا۔'
مزید پڑھیں: