علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو صرف ایک تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں بہت ساری تاریخ اور تہذیب محفوظ ہے، ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جس میں سب سے زیادہ تاریخی تعمیرات موجود ہیں جس میں اٹھارویں صدی کا بھیکم پور گیٹ بھی شامل ہے جو مغلیہ دور حکومت کا تعمیر کردہ آگرہ کے قلعہ میں پہلے نصب تھا اور 1915 میں تعمیر شدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر نواب سلطان جہاں بیگم کی 'سلطان جہاں منزل' بھی شامل ہے جس میں سرسید احمد خان کی 1886 میں قائم شدہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا دفتر موجود ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کی ناک کے نیچے ان دنوں بدحالی کا شکار ہے، عمارت کھنڈر اور میدان کوڑے دان میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس:
آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کو سر سید احمد خان نے 1886 میں قائم کیا تھا جس کے بانی سیکریٹری وہ خود رہے۔ جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا، ایک ایسا فورم کا قیام تھا جس کے ذریعے مسلمانوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں دینی تعلیم دے جائے۔
سلطان جہاں بیگم :
بھوپال کی نواب سلطان جہاں بیگم کی پیدائش 9 جولائی 1858 کو بھوپال میں ہوئی اور ان کا انتقال 12 مئی 1930 میں ہوا۔ نواب سلطان جہاں بیگم 1901 سے 1926 تک بھوپال کی حکمران رہیں ان کے دو صاحبزادے اور دوصاحبزادی تھیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر تھیں، نواب سلطان جہاں بیگم مسلمانوں کی تعلیم سے دلچسپی رکھتی تھی جنہوں نے نہ صرف 'سلطان جہاں منزل' کی تعمیر کروائیں بلکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لیے بھی ایک لاکھ روپیہ عطیہ کیا تھا۔
موجودہ سلطان جہاں منزل کی بدحالی اور آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی موجودہ صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اے ایم یو کے سابق پی آر او و اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے بتایا 'بانی درس کا سر سید احمد خاں کے مشن اور وژن کو پورا کرنے کا کام آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا تھا جس نے زبردست ملک میں ادارہ سازی کا کام کیا بدقسمتی یہ ہوئی ملک کی آزادی کے ساتھ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا دائرہ بھی آزاد ہوگیا، آج صرف اس کی ایک عمارت ہے جو بدحالی کا شکار ہے جس کی عمارت کھنڈر اور میدان کوڑے میں تبدیل ہو گئی ہے۔
ڈاکٹر راحت ابرار نے کہا کہ اس تاریخی اور اہمیت کی حامل 'سلطان جہاں منزل' کی تاریخ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت ہند نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے پانچ ممبران کو اے ایم یو کورٹ کی رکنیت کے لیے اہل قرار دیا تھا۔ ڈاکٹر راحت ابرار نے مزید کہا 'اب میری نظر میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا کام صرف اپنے پانچ ممبران کو اے ایم یو کورٹ میں بھیجنا ہے اس کے علاوہ مجھے کوئی اور اس کا کام نظر نہیں آتا'۔
اطلاع کے مطابق شمشاد مارکیٹ میں یونیورسٹی کیمپس کی جانب تمام دکانیں اور کئی مکانات کرائے پر ہیں جس کا کرایہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کو جاتا ہے باوجود اس کے سلطان جہاں منزل کو کھنڈر میں تبدیل ہونے سے بچانا تو دور صفائی کا کام بھی نہیں کروایا جاتا دروازہ سمیت نام کی تختی بھی غائب ہے۔
ملک کے مسلمانوں کو حکومت سے امید کی بجائے خود اپنی تاریخ، اپنی تہذیب، اپنی روایات، اپنی تاریخی اور اہمیت کی حامل عمارات کو محفوظ کرنا ہوگا۔ سلطان جہاں منزل جیسی تحریخی اور اہمیت کی حامل عمارات اور آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس جیسی تنظیم کی حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مسلمان خود ہی اپنی بدحالی کا ذمہ دار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Nawab Sultan Jahan Begum Death Anniversary: سلطان جہاں بیگم کی برسی، ان کی حیات و خدمات اور کچھ ان چھوئے پہلو