ETV Bharat / state

پی ایچ ڈی میں 'ادبی چوری' پر روک لگی: ڈاکٹر جمال احمد - 53 تھیسز میں 25 سے 40 فیصد کی چوری پائی گئی

یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی پابندی کے بعد ایک طرف جہاں پی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے آسانی ہوئی ہے۔ وہیں دوسری جانب دیگر مسائل پر بھی قابو پایا گیا ہے۔

چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی
author img

By

Published : Sep 19, 2019, 6:29 PM IST

Updated : Oct 1, 2019, 5:51 AM IST

سنہ 2000 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے پی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے احکامات جاری کر کے بتایا تھا کہ پی ایچ ڈی تھیسز جمع کرنے سے قبل آن لائن سافٹ ویئر میں چیک کرانا ضروری ہے جس میں اگر 0 سے 25 فیصد چوری پائی جاتی ہے تو وہ قابل قبول ہوگی۔

چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی

وہیں 25 سے 40 فیصد چوری پائی جاتی ہے تو اس صورت میں طلبا کو 6 مہینے کا موقع دیا جائے گا اور دوبارہ لکھنے کے لیے کہا جائے گا۔

اسی طرح اگر 40 سے 60 فیصد مقالے میں چوری پائی جاتی ہے تو اس صورت میں طلبا کو ایک برس کا موقع دیا جائے گا اور دوبارہ جمع کرنے کو کہا جائے گا۔ اگر اس صورت میں زیادہ چوری پائی جاتی ہے تو کینسل کر دیا جائے گا۔

اس کے تحت ملک کی سبھی یونیورسٹیز اس پر عمل کر رہی ہیں اور آن لائن سافٹ ویئر کے ذریعے چیک کر رہی ہیں۔

اس سلسلے میں میرٹھ کے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے لائبریرین ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے بتایا کہ 'گزشتہ تین برس میں 286 تھیسز کو آن لائن سافٹ ویئر میں چیک کیا گیا ہے، جس میں 215 تھیسز میں 0 سے 25 فیصد کی چوری پائی گئی ہے۔'

وہیں 53 تھیسز میں 25 سے 40 فیصد کی چوری پائی گئی ہے،اور 18 پی ایچ ڈی تھیسز میں 40 سے 60 فیصد کی چوری پائی گئی ہے۔ اس میں طلبا کو متعینہ وقت میں دوبارہ جمع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 'چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں 2014 میں پی ایچ ڈی ایوارڈ فنکشن منعقدکیا گیا تھا۔ جس میں 1186 طلبا و طالبات کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تھی جبکہ 2015 میں یہ تعداد گھٹ کر 496 ہوگئی اور 2016 میں یہ تعداد گھٹ کر 150 ہوگئی۔'

اس سلسلے میں 2018 میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کی تعداد کل 25 رہ گئی ہے۔

مذکورہ اعداد و شمار اس بات کا غماز ہے کہ یونیورسٹیز میں نہ صرف ریسرچ کے طلبا میں معیاری ریسرچ کا ذوق پروان چڑھا ہے بلکہ ادبی چوری پر بھی قابو پایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'معیاری ریسرچ کے ذریعے ہی یونیورسٹی اپنی شناخت قائم کرتی ہیں اور اسی کے ذریعے طلبا میں لیاقت پیدا ہوتی ہیں۔'

سنہ 2000 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے پی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے احکامات جاری کر کے بتایا تھا کہ پی ایچ ڈی تھیسز جمع کرنے سے قبل آن لائن سافٹ ویئر میں چیک کرانا ضروری ہے جس میں اگر 0 سے 25 فیصد چوری پائی جاتی ہے تو وہ قابل قبول ہوگی۔

چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی

وہیں 25 سے 40 فیصد چوری پائی جاتی ہے تو اس صورت میں طلبا کو 6 مہینے کا موقع دیا جائے گا اور دوبارہ لکھنے کے لیے کہا جائے گا۔

اسی طرح اگر 40 سے 60 فیصد مقالے میں چوری پائی جاتی ہے تو اس صورت میں طلبا کو ایک برس کا موقع دیا جائے گا اور دوبارہ جمع کرنے کو کہا جائے گا۔ اگر اس صورت میں زیادہ چوری پائی جاتی ہے تو کینسل کر دیا جائے گا۔

اس کے تحت ملک کی سبھی یونیورسٹیز اس پر عمل کر رہی ہیں اور آن لائن سافٹ ویئر کے ذریعے چیک کر رہی ہیں۔

اس سلسلے میں میرٹھ کے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے لائبریرین ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے بتایا کہ 'گزشتہ تین برس میں 286 تھیسز کو آن لائن سافٹ ویئر میں چیک کیا گیا ہے، جس میں 215 تھیسز میں 0 سے 25 فیصد کی چوری پائی گئی ہے۔'

وہیں 53 تھیسز میں 25 سے 40 فیصد کی چوری پائی گئی ہے،اور 18 پی ایچ ڈی تھیسز میں 40 سے 60 فیصد کی چوری پائی گئی ہے۔ اس میں طلبا کو متعینہ وقت میں دوبارہ جمع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 'چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں 2014 میں پی ایچ ڈی ایوارڈ فنکشن منعقدکیا گیا تھا۔ جس میں 1186 طلبا و طالبات کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تھی جبکہ 2015 میں یہ تعداد گھٹ کر 496 ہوگئی اور 2016 میں یہ تعداد گھٹ کر 150 ہوگئی۔'

اس سلسلے میں 2018 میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کی تعداد کل 25 رہ گئی ہے۔

مذکورہ اعداد و شمار اس بات کا غماز ہے کہ یونیورسٹیز میں نہ صرف ریسرچ کے طلبا میں معیاری ریسرچ کا ذوق پروان چڑھا ہے بلکہ ادبی چوری پر بھی قابو پایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'معیاری ریسرچ کے ذریعے ہی یونیورسٹی اپنی شناخت قائم کرتی ہیں اور اسی کے ذریعے طلبا میں لیاقت پیدا ہوتی ہیں۔'

Intro:یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی پابندی کے بعد بعد ایک طرف جہاں محنت کش پی ایچ ڈی اسکالروں کے لیے آسانی ہوئی ہے وہیں دوسری جانب ادبی چوری پر بھی قابو پایا گیا. یہی وجہ ہے کہ پہلے کے مقابل پی ایچ ڈی اسکالر کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے.


Body:سن 2000 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے پی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے احکامات جاری کر کے بتایا تھا کہ پی ایچ ڈی تھیسز جمع کرنے سے پہلے آن لائن سافٹ ویئر میں چیک کرانا ضروری ہے جس میں اگر اگر 0 سے 25 فیصد چوری پائی جاتی ہے تو وہ قابل قبول ہوگی جبکہ 25 سے 40 فیصد چوری پائی جاتی ہے تو اس صورت میں طالب علم کو 6 ماہ کا موقع دیا جائے گا اور دوبارہ لکھنے کے لیے کہا جائے گا.

اسی طرح اگر 40 سے 60 فیصد مقالے میں چوری پائی جاتی ہے تواس صورت میں طالب علم کو ایک برس کا موقع دیا جائے گا اور دوبارہ جمع کرنے کا کو کہا جائے گا اوراگر اس سے زیادہ چوری پائی جاتی ہے تو رد کر دیا جائے گا.

اس کے تحت ملک کی سبھی یونیورسٹیاں عمل کر رہی ہیں اور آن لائن سافٹ ویئر کے ذریعے چیک کر رہے ہیں.

میرٹھ کے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے لائبریرین ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے بتایا کہ گزشتہ تین برس میں 286 تھیسز کو آن لائن سافٹ ویئر میں چیک کیا گیا جس میں 215 تھیسز میں 0 سے 25 پرسنٹ کی چوری پائی گئی ہے ہے جبکہ 53 تھیسز میں 25 سے 40 فیصد کی چوری پائی گئی ہے. وہیں 18 پی ایچ ڈی تھیسس میں 40 سے 60 فیصد کی چوری پائی گئی ہے اس میں طالب علموں کو متعینہ وقت میں دوبارہ جمع کرنے کے لئے کہا گیا ہے.

انہوں نے بتایا کہ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں 2014 میں پی ایچ ڈی ایوارڈ فنکشن منعقدکیا گیا تھاجس میں 1186 طلباء و طالبات کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تھی جبکہ 2015 میں یہ تعداد گھٹ کر 496 ہوگی اور 2016میں میں یہ تعداد مزید گھٹ کر 150ہوگئی اور 2018 میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی ڈی حاصل کرنے والے طلباء وطالبات کی تعداد کل 25 رہ گئی.
مذکورہ اعداد و شمار اس بات پر غمّاز ہیں کہ یونیورسٹیز میں نہ صرف ریسرچ کے طلباء میں معیاری ریسرچ کا ذوق پروان چڑھا ہے بلکہ کی ادبی چوری پر بھی قابو پایا گیا ہے.

انہوں نے مزید کہا کہ معیاری ریسرچ کے ذریعے ہی یونیورسٹی اپنی شناخت قائم کرتی ہیں اور اسی کے ذریعے طلباء میں لیاقت پیدا ہوتی ہے .



Conclusion:بائٹ :ڈاکٹر جمال احمد صدیقی(لائبریرین سی سی ایس یو)
Last Updated : Oct 1, 2019, 5:51 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.