سنہ 2000 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے پی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے احکامات جاری کر کے بتایا تھا کہ پی ایچ ڈی تھیسز جمع کرنے سے قبل آن لائن سافٹ ویئر میں چیک کرانا ضروری ہے جس میں اگر 0 سے 25 فیصد چوری پائی جاتی ہے تو وہ قابل قبول ہوگی۔
وہیں 25 سے 40 فیصد چوری پائی جاتی ہے تو اس صورت میں طلبا کو 6 مہینے کا موقع دیا جائے گا اور دوبارہ لکھنے کے لیے کہا جائے گا۔
اسی طرح اگر 40 سے 60 فیصد مقالے میں چوری پائی جاتی ہے تو اس صورت میں طلبا کو ایک برس کا موقع دیا جائے گا اور دوبارہ جمع کرنے کو کہا جائے گا۔ اگر اس صورت میں زیادہ چوری پائی جاتی ہے تو کینسل کر دیا جائے گا۔
اس کے تحت ملک کی سبھی یونیورسٹیز اس پر عمل کر رہی ہیں اور آن لائن سافٹ ویئر کے ذریعے چیک کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں میرٹھ کے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے لائبریرین ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے بتایا کہ 'گزشتہ تین برس میں 286 تھیسز کو آن لائن سافٹ ویئر میں چیک کیا گیا ہے، جس میں 215 تھیسز میں 0 سے 25 فیصد کی چوری پائی گئی ہے۔'
وہیں 53 تھیسز میں 25 سے 40 فیصد کی چوری پائی گئی ہے،اور 18 پی ایچ ڈی تھیسز میں 40 سے 60 فیصد کی چوری پائی گئی ہے۔ اس میں طلبا کو متعینہ وقت میں دوبارہ جمع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں 2014 میں پی ایچ ڈی ایوارڈ فنکشن منعقدکیا گیا تھا۔ جس میں 1186 طلبا و طالبات کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تھی جبکہ 2015 میں یہ تعداد گھٹ کر 496 ہوگئی اور 2016 میں یہ تعداد گھٹ کر 150 ہوگئی۔'
اس سلسلے میں 2018 میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کی تعداد کل 25 رہ گئی ہے۔
مذکورہ اعداد و شمار اس بات کا غماز ہے کہ یونیورسٹیز میں نہ صرف ریسرچ کے طلبا میں معیاری ریسرچ کا ذوق پروان چڑھا ہے بلکہ ادبی چوری پر بھی قابو پایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'معیاری ریسرچ کے ذریعے ہی یونیورسٹی اپنی شناخت قائم کرتی ہیں اور اسی کے ذریعے طلبا میں لیاقت پیدا ہوتی ہیں۔'