مولانا عمر گوتم اور مولانا جہانگیر عالم قاسمی کی گرفتاری کے بعد تبدیلی مذہب کا موضوع پورے ملک میں زیر بحث ہے۔ اس کی پشت میں اسلام کو نشانہ بناکر ملک کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ جس سے مذہبی لوگوں میں کافی بیچینی بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں سے منسلک مسلمان واقعی غیر مسلموں کو جبرا تبدیلی مذہب کراتے ہیں؟ کیا اسلامی تعلیمات اس بات کا درس دیتی ہیں کہ لوگوں کو زور زبردستی سے مسلمان بنایا جائے؟
امیر مقامی جماعت اسلامی ہند رامپور مولانا عبدالخالق ندوی نے ان تمام سوالات کا مفصل جواب دیا، انہوں نے کہا کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل پر جبر نہیں ہو سکتا کیونکہ دل اسی بات کو مانتا ہے جسے وہ اپنے اختیار سے پسند کرتا ہے۔ اس لئے اسلام میں کسی کو جبراً مسلمان بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مولانا عبدالخالق ندوی نے کہا کہ اسلام کا اعتقادی، اخلاقی و عملی نظام کسی پر زور زبردستی کا قائل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ایک نظریہ ہے اور نظریہ کو کسی پر زور زبردستی سے نہیں تھوپا جا سکتا۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں۔
مولانا عمر گوتم اور مولانا جہانگیر عالم قاسمی پر کارروائی کے سوال پر مولانا عبدالخالق ندوی نے کہا کہ ملک اور ریاست میں اس وقت جو حکمراں طبقہ ہے وہ بڑا ہی ظالم و جابر قسم کا ہے۔ وہ اقتدار کے نشے میں چور ہے اور اقتدار کا نشہ بڑا ہی خطرناک ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس سے دو قسم کے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک یہ کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کردو اور دوسرا یہ کہ وہ اس کے ذریعہ ہندو مسلم کارڈ کھیل کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے اترپردیش کے آئندہ 2022 میں ہونے اسمبلی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب بابری مسجد کا مسئلہ بھی ختم ہو چکا ہے، دفعہ 370 کا مسئلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ اس لئے اب تبدیلی مذہب کے معاملے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
مولانا نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے دعوتی نظریہ کو اجاگر کیا جائے اور برادران وطن کے درمیان اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔