ETV Bharat / state

لکھنؤ: زینب صدیقی کے اہل خانہ نے پولیس بربریت کا الزام لگایا

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شامل مظاہرین پر پولیس کاروائی میں اچانک تیزی آ گئی ہے۔ اسی کڑی میں سماجی کارکن زینب صدیقی کے اہل خانہ پر پولیس نے بربریت کی حدیں پار کر دی گئی ہے۔ پولیس کاروائی پر کئی سماجی تنظیموں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے۔

reshma siddique
ریشمہ صدیقی
author img

By

Published : Nov 7, 2020, 8:45 PM IST

19 دسمبر 2019 کو دارالحکومت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج ہوا، جو شام ڈھلتے ڈھلتے پرتشدد ہوگیا تھا۔ نتیجتاً کئی کار اور بسوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا، جس کے بعد لکھنؤ پولیس نے سخت کاروائی کرتے ہوئے مظاہرین کی شناخت کر کے ان کی تصویر شہر کے مختلف چوراہوں پر لگایا تھا۔

دیکھیں ویڈیو

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن زینب کے نابالغ بھائی سعد نے بتایا کہ، 'پولیس نے پہلے گھر میں اور پھر تھانہ میں بہت زیادہ مارا پیٹا ہے۔ مجھے اور میرے والد کو الگ الگ تھانہ میں رکھا گیا تھا۔ صبح مجھے گھر بھیج دیا گیا لیکن والد صاحب کو نہیں چھوڑا گیا۔'

پولیس کاروائی سے سوال بھی اٹھانے لگے ہیں کیونکہ سماجی کارکن زینب صدیقی کو گرفتار کرنے گئی پولیس نے اہل خانہ سے مار پیٹ کی ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے ریشمہ صدیقی نے بتایا کہ، 'شام پانچ بجے کے بعد پولیس ہمارے گھر آئی اور میری بیٹی زینب کے بارے میں پوچھ گچھ کر کے چلی گئی تھی۔'

انہوں نے بتایا کہ، 'دوبارہ آٹھ سے دس لوگ بغیر پولیس وردی کے آئے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ آر ایس ایس کے غنڈے تھے یا بی جے پی کے لیکن انہوں نے ہمارے اوپر بربریت کی ساری حدیں پار کر دی تھی۔'

زینب کی ماں نے کہا کہ، 'مغرب کی نماز پڑھ کر میرے شوہر آ رہے تھے، جنہیں زبردستی پکڑ کر گاڑی میں بیٹھایا جا رہا تھا لیکن تبھی چیخ و پکار سن کر محلے والے بھی آ گئے، تبھی حسن گنج سے مزید پولیس فورسز آ گئی اور انہوں نے لاٹھی چارج کر دیا۔'

ریشمہ نے بتایا کہ، 'لاٹھی چارج میں میرے بیٹے سعد کو بہت بری طرح مارا پیٹا گیا۔ ساتھ ہی میرے شوہر اور میری بیٹیوں کے ساتھ بھی تشدد کیا گیا۔ پولیس میرے شوہر اور نابالغ بیٹا کو تھانہ لے گئی لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ دونوں کو کہاں رکھا گیا تھا۔ حالانکہ صبح بیٹا کو پولیس نے چھوڑ دیا لیکن شوہر کی کوئی جانکاری نہیں دی گئی، بعد میں بتایا گیا کہ ان کے خلاف سروجنی نگر تھانہ میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔'

زینب کی ماں نے بات چیت کے دوران کہا کہ، 'ہم ملک کے مجرم نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ دہشت گردوں کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے۔

پولیس نے بہت گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے گھر کی چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ بھی تشدد کیا ہے۔ موجودہ حکومت مذہب کے نام پر یکطرفہ کارروائی کر رہی ہے۔'

زینب سماجی کارکن ہیں، وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے میں شرکت کرتی رہیں لیکن ان کے خلاف کسی بھی تھانہ میں ایف آئی آر درج نہیں ہے۔ باوجود اس کے ان پر اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:

آج سے حج 2021 کے لیے آن لائن کارروائی کا آغاز

اب سوال اٹھتا ہے کہ آخر پولیس بنا ایف آئی آر یا شکایت کے کسی پر تشدد کیسے کر سکتی ہے؟ اس کاروائی میں ایک بھی خاتون پولیس کانسٹیبل نہیں تھی جبکہ زینب کے گھر میں کئی خواتین و ان کی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ بھی مار پیٹ کی گئی۔

19 دسمبر 2019 کو دارالحکومت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج ہوا، جو شام ڈھلتے ڈھلتے پرتشدد ہوگیا تھا۔ نتیجتاً کئی کار اور بسوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا، جس کے بعد لکھنؤ پولیس نے سخت کاروائی کرتے ہوئے مظاہرین کی شناخت کر کے ان کی تصویر شہر کے مختلف چوراہوں پر لگایا تھا۔

دیکھیں ویڈیو

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن زینب کے نابالغ بھائی سعد نے بتایا کہ، 'پولیس نے پہلے گھر میں اور پھر تھانہ میں بہت زیادہ مارا پیٹا ہے۔ مجھے اور میرے والد کو الگ الگ تھانہ میں رکھا گیا تھا۔ صبح مجھے گھر بھیج دیا گیا لیکن والد صاحب کو نہیں چھوڑا گیا۔'

پولیس کاروائی سے سوال بھی اٹھانے لگے ہیں کیونکہ سماجی کارکن زینب صدیقی کو گرفتار کرنے گئی پولیس نے اہل خانہ سے مار پیٹ کی ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے ریشمہ صدیقی نے بتایا کہ، 'شام پانچ بجے کے بعد پولیس ہمارے گھر آئی اور میری بیٹی زینب کے بارے میں پوچھ گچھ کر کے چلی گئی تھی۔'

انہوں نے بتایا کہ، 'دوبارہ آٹھ سے دس لوگ بغیر پولیس وردی کے آئے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ آر ایس ایس کے غنڈے تھے یا بی جے پی کے لیکن انہوں نے ہمارے اوپر بربریت کی ساری حدیں پار کر دی تھی۔'

زینب کی ماں نے کہا کہ، 'مغرب کی نماز پڑھ کر میرے شوہر آ رہے تھے، جنہیں زبردستی پکڑ کر گاڑی میں بیٹھایا جا رہا تھا لیکن تبھی چیخ و پکار سن کر محلے والے بھی آ گئے، تبھی حسن گنج سے مزید پولیس فورسز آ گئی اور انہوں نے لاٹھی چارج کر دیا۔'

ریشمہ نے بتایا کہ، 'لاٹھی چارج میں میرے بیٹے سعد کو بہت بری طرح مارا پیٹا گیا۔ ساتھ ہی میرے شوہر اور میری بیٹیوں کے ساتھ بھی تشدد کیا گیا۔ پولیس میرے شوہر اور نابالغ بیٹا کو تھانہ لے گئی لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ دونوں کو کہاں رکھا گیا تھا۔ حالانکہ صبح بیٹا کو پولیس نے چھوڑ دیا لیکن شوہر کی کوئی جانکاری نہیں دی گئی، بعد میں بتایا گیا کہ ان کے خلاف سروجنی نگر تھانہ میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔'

زینب کی ماں نے بات چیت کے دوران کہا کہ، 'ہم ملک کے مجرم نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ دہشت گردوں کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے۔

پولیس نے بہت گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے گھر کی چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ بھی تشدد کیا ہے۔ موجودہ حکومت مذہب کے نام پر یکطرفہ کارروائی کر رہی ہے۔'

زینب سماجی کارکن ہیں، وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے میں شرکت کرتی رہیں لیکن ان کے خلاف کسی بھی تھانہ میں ایف آئی آر درج نہیں ہے۔ باوجود اس کے ان پر اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:

آج سے حج 2021 کے لیے آن لائن کارروائی کا آغاز

اب سوال اٹھتا ہے کہ آخر پولیس بنا ایف آئی آر یا شکایت کے کسی پر تشدد کیسے کر سکتی ہے؟ اس کاروائی میں ایک بھی خاتون پولیس کانسٹیبل نہیں تھی جبکہ زینب کے گھر میں کئی خواتین و ان کی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ بھی مار پیٹ کی گئی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.