ETV Bharat / state

'مرادآباد میں بھی آج علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا بڑا اور کامیاب ادارہ ہوتا'

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 25, 2023, 12:47 PM IST

Updated : Dec 25, 2023, 2:22 PM IST

Sir Syed Ahmed Khan tried to open an institution like Aligarh Muslim University in Muradabad علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو پوری دنیا میں اس کے معیاری درس و تدریس کے لیے جانا پہچانا جاتا ہے۔ سر سید احمد خان اس یونیورسٹی کے بانی تھے۔ علی گڑھ میں اپنی مہم سے قبل سر سید نے مراداباد میں ایک مدرسہ کھولا تھا اور وہ یہاں ایک بڑا ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے مگر مرادآباد کی عوام اور علماء نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

Sir Syed Ahmed Khan
Sir Syed Ahmed Khan
Sir Syed Ahmed Khan

مرادآباد: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے اعلیٰ تعلیمی نظام اور معیاری درس و تدریس کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان تھے جنہوں نے لاکھ پریشانیاں اُٹھائیں اور لوگوں کے طعنے برداشت کئے مگر مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اہم کارنامے انجام دیے۔ یہ سر سید احمد خان کی کوشش کا ہی نتیجہ تھا کہ علی گڑھ میں موجود یونیورسٹی آج پوری دنیا میں جانی پہچانی جاتی ہے۔ سر سید احمد خان نے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانے کی غرض سے علی گڑھ میں ادارہ کھولنے سے پہلے مرادآباد میں اس کی پہل کی تھی۔

اسی سے متعلق شہر مرادآباد میں سر سید احمد خان کی تحریک کو قریب سے جاننے والے صفدر نیازی سے نے ای ٹی وی سے خصوصی گفتگو کی۔ صفدر نیازی نے سرسید احمد خان کی زندگی کے اس حصے پر روشنی ڈالی جب ایک مجسٹریٹ کی حیثیت سے اُنکا تقرر مرادآباد میں ہوا اور یہاں انہوں نے مسلمانوں کے پچھڑے پن کو دور کرنے کے لیے یہاں ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ مرادآباد کا قدیمی علاقہ جس کو آج تحصیل اسکول کے نام سے جانا جاتا ہے۔

نیازی نے کہا کہ اس تحصیل اسکول کو سر سید احمد خان نے ہی ایک مدرسے کی شکل میں قائم کیا تھا۔ اور مسلمانوں کو جہالت کی دلدل سے نکال کر ترقّی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کی۔ مگر مرادآباد کی عوام اور علماء کی ایک جماعت نے ان کے اس کوشش کی مخالفت کی، یہاں تک کہ جب انہوں نے اُس وقت تحصیل اسکول علاقے میں عوام سے رابطہ کیا تو ان کو لوگوں کے غصے کا شکار ہونا پڑا اور لوگوں نے ان پر اپنے جوتے چپل تک پھینکے مگر سر سید کا ظرف یہ تھا کہ انہوں نے ان جوتوں کو اکٹھا کیا اور آگرہ کی جوتا مارکیٹ میں بیچ کر جو پیسے ان کو حاصل ہوئے اس کو انہوں نے یہاں کے ادارے کے لیے چندا سمجھا اور عوام کا شکریہ ادا کیا۔

سر سید چونکہ مرادآباد میں واقع شوکت باغ میں ہی قیام کیا کرتے تھے اور ان کی سسرال بھی یہاں سے قریب تھی۔ اس کے علاوہ دلی اور لکھنؤ کے لیے یہاں سے ریلوے لائن تھی ان سب باتوں کو سوچ کر انہوں نے مرادآباد میں ادارہ قائم کرنے كا ارادہ کیا تھا مگر عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی گئی تھی کہ سر سید انگریزوں کی زبان ہمیں سکھانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'سرسید احمد خان کی اہلیہ پارسا بیگم نیک دل خاتون تھی'

مگر سر سید کا ارادہ کچھ اور ہی تھا وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اس قابل بنے کہ وہ حکومت سے اسی کی زبان میں بات کرے اور اپنی بات ان کو سمجھائے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر سید احمد خان کا دل یہاں سے ہٹ گیا اور مرادآباد سر سید احمد خان کی خدمات سے محروم رہ گیا۔ مگر سر سید احمد خان نے جو کوشش کی تھی اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے تو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا بڑا اور کامیاب ادارہ آج مرادآباد میں ہوتا۔

Sir Syed Ahmed Khan

مرادآباد: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے اعلیٰ تعلیمی نظام اور معیاری درس و تدریس کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان تھے جنہوں نے لاکھ پریشانیاں اُٹھائیں اور لوگوں کے طعنے برداشت کئے مگر مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اہم کارنامے انجام دیے۔ یہ سر سید احمد خان کی کوشش کا ہی نتیجہ تھا کہ علی گڑھ میں موجود یونیورسٹی آج پوری دنیا میں جانی پہچانی جاتی ہے۔ سر سید احمد خان نے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانے کی غرض سے علی گڑھ میں ادارہ کھولنے سے پہلے مرادآباد میں اس کی پہل کی تھی۔

اسی سے متعلق شہر مرادآباد میں سر سید احمد خان کی تحریک کو قریب سے جاننے والے صفدر نیازی سے نے ای ٹی وی سے خصوصی گفتگو کی۔ صفدر نیازی نے سرسید احمد خان کی زندگی کے اس حصے پر روشنی ڈالی جب ایک مجسٹریٹ کی حیثیت سے اُنکا تقرر مرادآباد میں ہوا اور یہاں انہوں نے مسلمانوں کے پچھڑے پن کو دور کرنے کے لیے یہاں ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ مرادآباد کا قدیمی علاقہ جس کو آج تحصیل اسکول کے نام سے جانا جاتا ہے۔

نیازی نے کہا کہ اس تحصیل اسکول کو سر سید احمد خان نے ہی ایک مدرسے کی شکل میں قائم کیا تھا۔ اور مسلمانوں کو جہالت کی دلدل سے نکال کر ترقّی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کی۔ مگر مرادآباد کی عوام اور علماء کی ایک جماعت نے ان کے اس کوشش کی مخالفت کی، یہاں تک کہ جب انہوں نے اُس وقت تحصیل اسکول علاقے میں عوام سے رابطہ کیا تو ان کو لوگوں کے غصے کا شکار ہونا پڑا اور لوگوں نے ان پر اپنے جوتے چپل تک پھینکے مگر سر سید کا ظرف یہ تھا کہ انہوں نے ان جوتوں کو اکٹھا کیا اور آگرہ کی جوتا مارکیٹ میں بیچ کر جو پیسے ان کو حاصل ہوئے اس کو انہوں نے یہاں کے ادارے کے لیے چندا سمجھا اور عوام کا شکریہ ادا کیا۔

سر سید چونکہ مرادآباد میں واقع شوکت باغ میں ہی قیام کیا کرتے تھے اور ان کی سسرال بھی یہاں سے قریب تھی۔ اس کے علاوہ دلی اور لکھنؤ کے لیے یہاں سے ریلوے لائن تھی ان سب باتوں کو سوچ کر انہوں نے مرادآباد میں ادارہ قائم کرنے كا ارادہ کیا تھا مگر عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی گئی تھی کہ سر سید انگریزوں کی زبان ہمیں سکھانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'سرسید احمد خان کی اہلیہ پارسا بیگم نیک دل خاتون تھی'

مگر سر سید کا ارادہ کچھ اور ہی تھا وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اس قابل بنے کہ وہ حکومت سے اسی کی زبان میں بات کرے اور اپنی بات ان کو سمجھائے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر سید احمد خان کا دل یہاں سے ہٹ گیا اور مرادآباد سر سید احمد خان کی خدمات سے محروم رہ گیا۔ مگر سر سید احمد خان نے جو کوشش کی تھی اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے تو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا بڑا اور کامیاب ادارہ آج مرادآباد میں ہوتا۔

Last Updated : Dec 25, 2023, 2:22 PM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.