میرٹھ کالج یہاں کا سب سے قدیم کالج ہے،جہاں مختلف اہل قلم و ادب نے اپنی خدمات انجام دی ہیں۔
میرٹھ کالج کے شعبہ اردو میں بشیر بدر جیسی اردو ادب کی نامور شخصیت صدر شعبہ اردو اور پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکی ہوں۔
اس شعبہ کا المیہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں سے یہاں کوئی بھی مستقل پروفیسر کی تقریری عمل میں نہیں آئی ہے ۔
میرٹھ کالج کے اُردو طلبا کی تعلیم ریٹائرڈ پروفیسر کے رحم و کرم پر جاری ہے ۔
میرٹھ کالج کے شعبہ اردو میں میں 2015 تک ڈاکٹر خالد حسین خان اور پروفیسر یونس غازی مستقل استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے 2014 میں ڈاکٹر خالد اور 2015 میں پروفیسر ڈاکٹر یونس غازی کے ریٹائر ہونے کے بعد سے شعبہ میں مستقل استاد کی تین نشستیں خالی ہو گئی ہیں اور طلباء و طالبات کا تعلیمی سلسلہ عارضی استاد کے بھروسے چل رہا ہے ۔
سنہ 2015 میں اپنی خدمات سے سبکدوش ہونے کے بعد ڈاکٹر یونس غازی اب عارضی طور پر ذاتی جذبے اور خواہش سے اس خدمت کو انجام دے رہے ہیں ۔
پروفیسر یونس غازی نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہ وہ شعبہ اردو کو بند ہونے سے بچانے کے لیے بغیر کسی اجرت کے اپنی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
میرٹھ کالج میں شعبہ اردو کے قائم ہونے کے بعد سے ہی بی اے اور ایم اے میں طلباء اور طالبات کی خاص تعداد رہی ہے لیکن گزشتہ سالوں میں طالب علموں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے۔
اس سال بی اے میں تقریبا 45 اور ایم اے میں محض 15 طالب علم ہے اور ان میں بھی زیادہ تعداد طالبات کی ہے۔
اردو زبان میں تعلیم حاصل کر رہی طالبات کا کہنا ہے اساتذہ کی کمی کے سبب شعبہ کا تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے جس کا نقصان طالب علموں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
مزید پڑھیں:بنارس: عرس غریب نوازؒ کا اہتمام، قوالی پر جھوم اٹھے عقیدت مند
کالج میں مسقتل پروفیسر کی تقرری کے متعلق جب کالج انتظامیہ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ کالج کے سبھی شعبوں میں ٹیچرز کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اسامیاں نکالی جا رہی ہے اور جلد ہی ان جگہوں کو پر کیا جا سکے گا۔
باضابطہ طور پر کالج میں ٹیچرز کی تقرری نہ ہونے سے ان شعبوں میں زبان کے نقصان کے علاوہ طالب علموں کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے۔
ایسے میں ضرورت ہے کہ شعبہ میں مستقل پروفیسرز کی جلد تقرری عمل لائی جائے تاکہ طالب علموں کی تعلیم کے ساتھ زبان کے نقصان سے بھی بچایا جا سکے۔