واضح رہے کہ ملک بھر میں اس قانون کے خلاف یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات، سماجی، سیاسی و ملی تنظیموں اور عوام و خواس کی بڑی تعداد میدان میں ہیں اور بیک زبان قہریت ترمیمی قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔
اسی کڑی میں دو دنوں قبل ندوۃ العلماء لکھنؤ اور انٹریگل یونیورسٹی میں بھی تفریق پیدا کرنے والے اس قانون کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔
وہیں آج شیعہ مسلمانوں نے بھی شہریت ترمیمی قانون کے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔
حالانکہ گذشتہ روز ہی شیعہ کالج میں بڑی تعداد میں پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی تھی۔
احتجاجی مظاہرے میں بڑی تعداد میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شریک رہیں۔
صحافیوں سے بات چیت کے دوران طالب علم زکی اختر نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے ہم سب کو اپنی پہچان بتانی پڑے گی جب کہ ملک کی آزادی کے بعد ہم مسلمانوں نے پاکستان نہ جاکر بھارت میں رہنے کو ترجیح دیا۔
لہذا ہم حکومت کو کیوں بتائیں کہ ہم بھارتی ہیں؟ جبکہ ہم یہیں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے ہیں اور اسی ملک میں ہم مریں گے بھی۔
اس لیے اس قانون کو حکومت واپس لے کیونکہ یہ ملک کے آئین کے خلاف ہے اور دستور کے خلاف ہے۔ جمہوریت کے خلاف ہے اور سماج کو مذہب کے نام پر بانٹنے والا ہے۔