ETV Bharat / state

Seminar in AMU : مغل سلطنت میں آرٹ، فن تعمیر اور تاریخ نویسی کے موضوع پر سیمینار - ای ٹی وی بھارت اردو خبر

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ تاریخ، سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کے زیر اہتمام ’مغل سلطنت: آرٹ، آرکیٹیکچر و تاریخ نویسی‘ کے موضوع پر تین روزہ قومی سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ معروف مؤرخ اور شعبہ تاریخ، اے ایم یو کے پروفیسر ایمریٹس پروفیسر عرفان حبیب نے پیش کیا۔

Seminar in AMU
Seminar in AMU
author img

By

Published : Mar 13, 2023, 8:07 PM IST

علی گڑھ: ''تعمیراتی ٹکنالوجی کا مطالعہ تاریخ نویسی کے نقطۂ نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان کے تعمیراتی ورثے کی تکثیریت بہت دلکش ہے۔ ہمارے پاس اشوک کے دور کے غاروں سے لے کر دہلی سلطنت کے دور کے گنبد اور مغلیہ عہد کے تاج محل سمیت بے شمار تعمیرات ہیں جو ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں“۔ ان خیالات کا اظہار معروف مؤرخ اور شعبہ تاریخ، اے ایم یو کے پروفیسر ایمریٹس پروفیسر عرفان حبیب نے کیا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ تاریخ، سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کے زیر اہتمام ’مغل سلطنت: آرٹ، آرکیٹیکچر و تاریخ نویسی‘ کے موضوع پر تین روزہ قومی سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کررہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:

پروفیسر حبیب نے ’مغل فن تعمیر اور تاریخ نویسی‘ پر گفتگو کرتے ہوئے مغل فن تعمیر کو تشکیل دینے والے متنوع عناصر کو بیان کیا اور واضح کیا کہ عمارتوں میں گنبد کس طرح بازنطینی سلطنت سے مستعار لیے گئے جب کہ محراب یونانیوں سے درآمد کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ چونے اور جپسم جیسے مواد کا استعمال بھی مسلمانوں نے فارسیوں اور یونانیوں سے اپنایا۔ پروفیسر عرفان حبیب نے مغل بادشاہ اکبر اور جہانگیر کے وسیع المشرب نقطۂ نظر پر روشنی ڈالی جیسا کہ ان کے دور کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا ”درباری تاریخیں آئین اکبری اور تزک جہانگیری، مغلوں کے کثیر ثقافتی طور طریقوں کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں جن کا اندازہ ان کے فن تعمیر سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے“۔

افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کے طور پر شعبہ تاریخ کی اہمیت اور اس کی خدمات کی ستائش کی۔ انہوں نے مغل شہزادہ دارا شکوہ کے عہد کے مجموعی فکری اور ثقافتی ماحول کا بھی ذکر کیا کہ وہ کس طرح متنوع ہندوستانی ثقافت اور معاشرے کی علامت بنے۔ شعبہ تاریخ کی سربراہ پروفیسر گلفشاں خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کی وراثت اور تاریخ کے میدان میں ان کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے آثار الصنادید کا بطور خاص ذکر کیا۔ انھوں نے کئی تاریخی عمارات جیسے کہ اکبر آبادی مسجد اور لال قلعہ کے اندر کی کچھ عمارتوں کا بھی ذکر کیا جو 1857 کی جنگ آزادی میں برباد ہوگئیں۔ پروفیسر گلفشاں خاں نے مزید کہا کہ ہسٹوریو گرافی، سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کی توجہ کے اہم میدان ہے، جس میں پینٹنگ، فن تعمیر، آرٹ اور تاریخ کے موضوعات شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تین روزہ سیمینار میں فرانس، اٹلی، امریکہ، جاپان اور ہندوستان کے مختلف اسکالرز موضوع کے مختلف پہلوؤں پر مقالے پیش کریں گے۔

علی گڑھ: ''تعمیراتی ٹکنالوجی کا مطالعہ تاریخ نویسی کے نقطۂ نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان کے تعمیراتی ورثے کی تکثیریت بہت دلکش ہے۔ ہمارے پاس اشوک کے دور کے غاروں سے لے کر دہلی سلطنت کے دور کے گنبد اور مغلیہ عہد کے تاج محل سمیت بے شمار تعمیرات ہیں جو ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں“۔ ان خیالات کا اظہار معروف مؤرخ اور شعبہ تاریخ، اے ایم یو کے پروفیسر ایمریٹس پروفیسر عرفان حبیب نے کیا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ تاریخ، سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کے زیر اہتمام ’مغل سلطنت: آرٹ، آرکیٹیکچر و تاریخ نویسی‘ کے موضوع پر تین روزہ قومی سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کررہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:

پروفیسر حبیب نے ’مغل فن تعمیر اور تاریخ نویسی‘ پر گفتگو کرتے ہوئے مغل فن تعمیر کو تشکیل دینے والے متنوع عناصر کو بیان کیا اور واضح کیا کہ عمارتوں میں گنبد کس طرح بازنطینی سلطنت سے مستعار لیے گئے جب کہ محراب یونانیوں سے درآمد کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ چونے اور جپسم جیسے مواد کا استعمال بھی مسلمانوں نے فارسیوں اور یونانیوں سے اپنایا۔ پروفیسر عرفان حبیب نے مغل بادشاہ اکبر اور جہانگیر کے وسیع المشرب نقطۂ نظر پر روشنی ڈالی جیسا کہ ان کے دور کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا ”درباری تاریخیں آئین اکبری اور تزک جہانگیری، مغلوں کے کثیر ثقافتی طور طریقوں کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں جن کا اندازہ ان کے فن تعمیر سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے“۔

افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کے طور پر شعبہ تاریخ کی اہمیت اور اس کی خدمات کی ستائش کی۔ انہوں نے مغل شہزادہ دارا شکوہ کے عہد کے مجموعی فکری اور ثقافتی ماحول کا بھی ذکر کیا کہ وہ کس طرح متنوع ہندوستانی ثقافت اور معاشرے کی علامت بنے۔ شعبہ تاریخ کی سربراہ پروفیسر گلفشاں خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کی وراثت اور تاریخ کے میدان میں ان کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے آثار الصنادید کا بطور خاص ذکر کیا۔ انھوں نے کئی تاریخی عمارات جیسے کہ اکبر آبادی مسجد اور لال قلعہ کے اندر کی کچھ عمارتوں کا بھی ذکر کیا جو 1857 کی جنگ آزادی میں برباد ہوگئیں۔ پروفیسر گلفشاں خاں نے مزید کہا کہ ہسٹوریو گرافی، سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کی توجہ کے اہم میدان ہے، جس میں پینٹنگ، فن تعمیر، آرٹ اور تاریخ کے موضوعات شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تین روزہ سیمینار میں فرانس، اٹلی، امریکہ، جاپان اور ہندوستان کے مختلف اسکالرز موضوع کے مختلف پہلوؤں پر مقالے پیش کریں گے۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.