ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے میونسپل کارپوریشن میں وبا کے دوران بھی افسران کے سرپرستی میں بدعنوانی پھل پھول رہی ہے، ہاٹ اسپاٹ علاقوں میں سینیٹائزر تقسیم کرنے کے لے بوتلوں کی خریداری میں بدعنوانی کا کھیل منظرعام پر آیا ہے، مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ اس پلاسٹک بوتلوں کی قیمت 2 سے 3 روپے دستیاب ہے۔ لیکن میونسپل کارپوریشن نے اس کی خریداری 10 روپے ظاہر کی ہے۔ 10 روپے کی خرید دکھا کر 10 ہزار شیشیوں کی ادائیگی کے لیے ایک فائل بھی تیار کر دی گئی اور منظوری کے لیے ایڈیشنل میونسپل کمشنر امیت کمار کے پاس جا پہنچی۔
ایڈیشنل میونسپل کمشنر کو 50 ایم ایل کی پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی بوتل کی قیمت 10 روپے مہنگی معلوم لگی تو انہوں نے تفتیش بٹھا دی۔ لیکن میونسپل کمشنر ڈاکٹر اندرمنی ترپاٹھی نے بدعنوانی کے اس واقعے کی تردید کرتے ہوئے وضاحت پیش کی کہ یہ تمام بوتلیں ایک تنظیم کے زریعہ مفت میں دی گئیں ہے اور اس میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوئی ہے۔
اس کے بعد میئر بھاٹیہ نے خود اس پورے واقعہ کے بارے میں میونسپل کمشنر کو سنجیدگی سے تفتیش کا حکم دیا تو میونسپل کارپوریشن میں ہلچل مچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ 'قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کی انکوائری کی جائے یہ کسی قیمت پر برداشت کرنے کی بات نہیں ہے۔
ایڈیشنل میونسپل کمشنر امیت کمار نے بتایا کہ '10 ہزار بوتلوں کی فی بوتل 10 روپے کی قیمت بتا کر ادائیگی کے لیے ایک فائل آئی تھی اور 10،000 بوتلوں کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے ادائیگی روکنے کے ساتھ تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ 'ہول سیل مارکیٹ میں سینیٹائزر پیکنگ کے لیے خریدی گئی بوتل کی قیمت صرف 2 ہے، ایسی صورتحال میں بڑی تعداد میں دس ہزار بوتل خرید کر انہیں ہر بوتل پر 10 روپے کی خریداری دکھا کر ایک بڑی کرپشن ہوئی جس میں سینئر افسران بھی ملوث ہیں۔