یہ تحقیقی ادارہ عالمی شہرت یافتہ ہے،جہاں دور دراز سے لوگ تحقیق کے لیے آتے ہیں۔
منتظمین کے مطابق شبلی اکیڈمی میں تقریبا 700 مخطوطات موجود ہیں ۔
یہ تمام مخطوطات آسار قدیمہ کے ماہرین کی نگرانی میں گذشتہ برسوں میں پریزرو (preserve) کرائے گئے ہیں۔
ان میں کچھ مغلیہ دور سلطنت کی بیش بہا اصناف بھی ہیں ۔
شبلی اکیڈمی کے کتب خانے کا قیمتی اساسہ اکبر نامہ ہے،شہنشاہ اکبر کے دور اقتدار کی اکبر نامہ میں بے مثال عکاسی کی گئی ہے۔
ابوالفضل نے اکبر نامہ میں شہنشاہ اکبر کے دور کے مختلف مواقع کو تفصیلی طور پر نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ شاندار تصاویر کے ذریعہ اسے خوبصورت طریقے سے منظر عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی گئ ہے۔
شہنشاہ اکبر کا شاہی دربار اکبر نامہ کی ابتدا میں پیش کیا گیا ہے۔یہاں شاہی دربار کی تمام ِخوبیاں اس میں صاف نظر آتی ہیں۔
شہنشاہ اکبر کے دور میں کھیل کود کی کیا اہمیت تھی، اسے بھی تصاویر کے ذریعہ دکھایا گیا ہے۔
اس وقت کے پولو کھیل کی طرز پر گھوڑسواروں کو کھیلتے ہوئے خوبصورت رنگوں میں تصاویر پیش کیا گیا ہے۔
مغلیہ دور میں شکار کے دوران کے حالات کو بھی شاندار انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اکبر نامہ کے صفحات پر موجود تصاویر بے مثال ہیں۔
مزید پڑھیں:دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ایک علمی و تحقیقی ادارہ
اس کے علاوہ دارالمصنفین میں بادشاہ جہاں گیر کی بیٹی جہاں آرا بیگم کی تصنیف کردہ 'مونس الارواح' بھی موجود ہے۔
اس شاندار مخطوت کو حاصل کرنے کی بھی ایک داستان ہے۔
دارالمصنفین میں فارسی زبان میں راماین کا نسخہ بھی ہے۔
دارا شکوہ کی تاریخی تصنیف سفینۃ الاولیا بھی ادارے کی شان کے طورپر موجود ہے ۔
خیال رہے کہ1201 ہجری میں یہ مخطوت منظر عام ہوئی ہے، اس کے علاوہ گیارہویں صدی ہجری میں تصنیف کی گئی یحیی ابن ابراہیم کی وقعات العیان ابن خلقان بھی دارالمصنفین کی زینت بنی ہوئی ہے ۔