اترپردیش کے رامپور میں ریاست قالین دور میں چاقو بنانے کے کئی کارخانے موجود تھے، اور کافی کاریگر بھی، جو چاقو بناکر اپنے خاندان کا لالن پالن کرتے تھے۔
لیکن چاقو کا کاروباراس وقت بند ہونے لگا، جب حکومت کے جانب سے اس کاروبار کے لیے کوئی مالی امداد فراہم نہیں کی گئ، اور اس چاقو سے متعلق حکومت اپنے قانون بھی کافی سخت کر لیے، جس کی وجہ سے رامپور کے کاروباریوں نے چاقو بنانے کے کاروبار کو بند کرنا ہی مناسب سمجھا۔
رامپوری چاقو کے بارے میں رامپور کے سینئر سٹیزن اور نائف ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری رہے فضل شاہ بتاتے ہیں، کہ رامپوری چاقو کی تاریخ بہت پرانی ہے، اسٹیٹ کے زمانے میں تلوار کو توڑ کر چاقو بنایا جاتا تھا، اور یہاں کا چاقو پوری دنیا میں مشہور تھا، آج بھی رامپور چاقو کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ17 مارچ 1967 کو یوپی حکومت نے اپنے کچھ میونسپل علاقوں میں 10 سینٹی میٹر سے زیادہ بڑے چاقو پر دفعہ 25 نافذ کر دیا، جس سے کاروباریوں پر گہرا اثر پڑا، اور کافی لوگ بے روزگار ہوئے، جو رکشہ چلانے لگے، کچھ دردوزی کام کرنے لگے، سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ کاروباریوں کو لائسنس جاری کئے گئے تھے، جس میں لکھا تھا کہ کوئی بھی کاروباری ایک برس میں 400 ہی چاقو فروخت کر سکتا ہے۔
وہیں چاقوکاروباری سندیپ اگروال نے بتایا کہ رامپور میں کافی تعداد میں چاقو تیار ہوتے تھے۔ رامپور کے اندر شاداب مارکٹ کے قریب ایک بہت بڑی چاقو مارکیٹ بھی تھی جو چاقو مارکیٹ کے نام سے ہی مشہور تھی۔
چاقو تاجر خوشنود میاں چاقو سے متعلق حقیقت بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 90 سال ہو گئے چاقو کا کاروبار کرتے ہوئے، کوٹھی خاص باغ کے اندر سے کیسا کیسا ناياب چاقو نکلا ہے، کرسیوں پر بیٹھے لوگ کیا جانیں، ان کو کچھ نہیں آتا ہے۔
دوسری جانب خوشنود میاں کہتے ہیں کہ موجودہ حالات اتنے برے ہیں کہ لوگوں کو روٹی ہاتھ نہیں آ رہی ہے وہ رکشہ چلانے پر مجبور ہیں، چاقو تاجروں نے اپنا کاروبار تبدیل کر دیا ہے، کوئی برتن فروخت کررہا ہے، تو کوئی ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان لگا کراپنی روزی روڈی کما رہا ہے۔