رامپور رضا لائبریری اپنے نوادرات کے اعتبار بجا طور پر عالمی شہرت کی حامل ہے، یہاں عربی، فارسی، اردو، ترکی، پشتو، سنسکرت اور ہندی کے خطوط کا بڑا وسیع سرمایہ موجود ہے جس سے استفادہ کرنے والے دور دراز سے سفر کرکے اس منبع فیض سے اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لیے آتے رہتے ہیں۔
کتابوں کی جانب لوگوں کی دلچسپی میں اضافہ کرنے کے مقصد سے اس لائبریری کے دربار عام میں لائبریری میں محفوظ کتابوں کے نایاب نسخوں کی نمائش جاری ہے، 8 تا 15 دسمبر تک جاری رہنے والی اس نمائش میں عام عوام کے ساتھ طلباء و طالبات بھی بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔
ان کتابوں میں علماء، ادباء اور نوابی ریاست رامپور کے ذریعہ رامپور کو ایک تہذیبی و ثقافتی اور علم سے مالا مال کرنے میں ان کے کاموں کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے، ان نایاب کتابوں کے نسخوں کو دیکھنے آئے اسکولی طلباء و طالبات کا گروپ کافی مسرت کا اظہار کر رہا ہے۔
یہ عظیم الشان کتب خانہ رامپور کے علمی و ادبی ذوق کا ایک انمول خزانہ ہے، جسے ریاست کے پہلے نواب سید فیض اللہ خان نے سنہ 1796 میں شروع کیا تھا اور ریاست کے دیگر علم پرور نوابوں نے بیش قیمت کتابوں کا اضافہ کرکے اسے دنیا کی عظیم لائبریری بنا دیا، بالخصوص آخری نواب رضا علی خاں بہادر، جنہیں فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی تھی نے ذخیرہ میں بہت اضافہ کیا۔
اس لائبریری میں مختلف زبانوں کے 15 ہزار مخطوطات اور 70 ہزار سے زائد مطبوعات ہیں، ان کے علاوہ آپ یہاں سینکڑوں نادر قلمی تصاویر اور خطاطی کے نمونوں کا بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
لائبریری کی شاندار عمارت نواب حامد رضا خاں نے سنہ 1904 میں دربار کے لیے تعمیر کرائی تھی جس کا ہند یوروپی طرز تعمیر اور اندرونی طلاء کاری جھاڑ، فانوس اور سجاوٹ آپ اپنی مثال ہیں۔