ETV Bharat / state

رامپور: سی اے اے اور این آر سی معاملے میں گرفتاریوں پر دفاعی وکلاء کا ردعمل

author img

By

Published : Sep 14, 2020, 11:01 PM IST

ریاست اترپردیش کے شہر رامپور میں سی اے اے اور این آر سی مظاہرے کے الزام میں پولیس نے ایک مرتبہ پھر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

دفاعی وکلاء کا ردعمل
دفاعی وکلاء کا ردعمل

دوبارہ شروع ہوئی گرفتاریوں میں 20 دن کے اندر 33 افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیجا جا چکا ہے۔ ان گرفتاریوں کے تعلق سے ضلع کی سیاسی، دینی اور ملی قیادت خاموش تماشائی بنی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

دفاعی وکلاء کا ردعمل

ان گرفتاریوں کی قانونی حیثیت اور ملزمین کے خلاف دائر مقدموں کی موجودہ صورتحال جاننے کے لیے ہم نے معاملے کے دفاعی وکلاء سے بات کی۔

لاک ڈاؤن کے بعد دوبارہ شروع ہوئی گرفتاریوں میں رامپور کے تھانہ گنج اور کوتوالی پولیس اب تک 33 افراد کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج چکی ہے۔

واضح رہے کہ 21 دسمبر 2019 کو رامپور عید گاہ میں ملی قیادت کی زیر نگرانی متحدہ طور پر شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد ہونا تھا لیکن عین وقت پر انتظامیہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

عوام جب شہر کے مختلف علاقوں سے جمع ہوکر جلسہ گاہ کی جانب بڑھی تو پولیس کی بھاری جمیعت نے عید گاہ سے آدھا کلو میٹر دور ہاتھی خانہ کے چوراہے پر انہیں روک لیا تھا لیکن جب عوام کا جم غفیر عیدگاہ کی جانب بڑھنے کے لیے بضد ہوا تو پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغ کر روکنے کی کوشش کی۔

تھوڑی ہی دیر میں دونوں جانب سے پتھر بازی بھی شروع ہوگئی۔ اسی درمیان مظاہرین میں سے ایک فیض نامی نوجوان کو گولی لگ گئی جس سے اس کی موقع پر ہی موت ہو گئی اور وہاں موجود متعدد افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔

اس کے بعد تھانہ گنج اور کوتوالی میں پولیس کی جانب سے دو مقدمے درج ہوئے جس میں 116 نامزد جبکہ ایک ہزار نامعلوم افراد کے خلاف مختلف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے کارروائی کرتے ہوئے 34 افراد کو قصوروار قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

طویل جدوجہد کے بعد 26 افراد کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ ساتھ ہی علماء کے وفد نے ضلع انتظامیہ اور پولیس کپتان سے ملاقات کرکے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ اس معاملے میں اب مزید گرفتاریاں نہیں ہوں گی لیکن لاک ڈاؤن کے بعد پولیس کی جانب سے دوبارہ شروع ہوئی ان گرفتاریوں سے سماجی کارکنان اور ملی رہنما حیرت زدہ ہیں لیکن اب کچھ بھی کہنے سے گریز کر رہے ہیں۔

وہیں ملزمین کے دفاعی وکیل محمد ضمیر رضوی نے پولیس کی جانب سے دائر کئے گئے دو مقدموں پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔

جبکہ ملزمین کے ایک دیگر دفاعی وکیل ریحان خان نے پولیس انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 'پولیس اپنا متعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے صرف ایک ہی فرقہ کے لوگوں کو بے جا الزامات کے تحت گرفتار کر رہی ہے۔

بھلے ہی متاثرین کے مقدموں کی پیروی یہ وکلاء کر رہے ہیں لیکن جس تیزی کے ساتھ پولیس کی جانب سے ملزمین کی گرفتاریوں کا سلسہ چل رہا ہے اس کو دیکھ کر ابھی یہ کہنا مشکل ہوگا کہ بے قصور افراد کب راحت کی سانس لے سکیں گے۔

دوبارہ شروع ہوئی گرفتاریوں میں 20 دن کے اندر 33 افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیجا جا چکا ہے۔ ان گرفتاریوں کے تعلق سے ضلع کی سیاسی، دینی اور ملی قیادت خاموش تماشائی بنی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

دفاعی وکلاء کا ردعمل

ان گرفتاریوں کی قانونی حیثیت اور ملزمین کے خلاف دائر مقدموں کی موجودہ صورتحال جاننے کے لیے ہم نے معاملے کے دفاعی وکلاء سے بات کی۔

لاک ڈاؤن کے بعد دوبارہ شروع ہوئی گرفتاریوں میں رامپور کے تھانہ گنج اور کوتوالی پولیس اب تک 33 افراد کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج چکی ہے۔

واضح رہے کہ 21 دسمبر 2019 کو رامپور عید گاہ میں ملی قیادت کی زیر نگرانی متحدہ طور پر شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد ہونا تھا لیکن عین وقت پر انتظامیہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

عوام جب شہر کے مختلف علاقوں سے جمع ہوکر جلسہ گاہ کی جانب بڑھی تو پولیس کی بھاری جمیعت نے عید گاہ سے آدھا کلو میٹر دور ہاتھی خانہ کے چوراہے پر انہیں روک لیا تھا لیکن جب عوام کا جم غفیر عیدگاہ کی جانب بڑھنے کے لیے بضد ہوا تو پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغ کر روکنے کی کوشش کی۔

تھوڑی ہی دیر میں دونوں جانب سے پتھر بازی بھی شروع ہوگئی۔ اسی درمیان مظاہرین میں سے ایک فیض نامی نوجوان کو گولی لگ گئی جس سے اس کی موقع پر ہی موت ہو گئی اور وہاں موجود متعدد افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔

اس کے بعد تھانہ گنج اور کوتوالی میں پولیس کی جانب سے دو مقدمے درج ہوئے جس میں 116 نامزد جبکہ ایک ہزار نامعلوم افراد کے خلاف مختلف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے کارروائی کرتے ہوئے 34 افراد کو قصوروار قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

طویل جدوجہد کے بعد 26 افراد کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ ساتھ ہی علماء کے وفد نے ضلع انتظامیہ اور پولیس کپتان سے ملاقات کرکے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ اس معاملے میں اب مزید گرفتاریاں نہیں ہوں گی لیکن لاک ڈاؤن کے بعد پولیس کی جانب سے دوبارہ شروع ہوئی ان گرفتاریوں سے سماجی کارکنان اور ملی رہنما حیرت زدہ ہیں لیکن اب کچھ بھی کہنے سے گریز کر رہے ہیں۔

وہیں ملزمین کے دفاعی وکیل محمد ضمیر رضوی نے پولیس کی جانب سے دائر کئے گئے دو مقدموں پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔

جبکہ ملزمین کے ایک دیگر دفاعی وکیل ریحان خان نے پولیس انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 'پولیس اپنا متعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے صرف ایک ہی فرقہ کے لوگوں کو بے جا الزامات کے تحت گرفتار کر رہی ہے۔

بھلے ہی متاثرین کے مقدموں کی پیروی یہ وکلاء کر رہے ہیں لیکن جس تیزی کے ساتھ پولیس کی جانب سے ملزمین کی گرفتاریوں کا سلسہ چل رہا ہے اس کو دیکھ کر ابھی یہ کہنا مشکل ہوگا کہ بے قصور افراد کب راحت کی سانس لے سکیں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.