ایودھیا متنازع کیس میں ملوث سابق رکن پارلیمان اور سنت رام ولاس ویدانتی جمعرات کے روز لکھنؤ کی سی بی آئی اسپیشل کورٹ میں حاضر ہوئے۔ عدالت سے لوٹتے وقت انہوں نے کہا کہ ایودھیا میں جو ڈھانچہ گرا تھا، وہ بابری مسجد کا نہ ہو کر مندر کا تھا۔ وہاں پہلے بھی مندر تھا اور آج بھی مندر ہی ہے۔
ویدانتی نے کہا کہ اس معاملے میں عدالت اگر مجھے سزائے موت بھی دے تو خوشی سے تسلیم ہے۔
ایودھیا کیس کے سلسلے میں لکھنؤ سی بی آئی اسپیشل کورٹ میں جمعرات کے روز ولاس ویدانتی کے ساتھ ہی بی جے پی رہنما ونے کٹیار بھی پہنچے تھے۔ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے ویدانتی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت کی۔
اس دوران انہوں نے کہا کہ ایودھیا میں جس جگہ پر رام ہیں، وہاں پر آزادی سے پہلے بھی مندر تھا اور آزادی کے بعد بھی وہ مندر کی ہی طرح ہے۔
رام ولاس ویدانتی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ بھگوان رام للا کی جنم بھومی ہے۔ ایسے میں اس جگہ پر موجود عمارت کو بابری مسجد کہا جانا درست نہیں ہے۔
ساتھ ہی کہا کہ جو ڈھانچہ گرایا گیا ہے، وہ بابری مسجد کا نہ ہو کر مندر کا ہی تھا۔ آج بھی وہاں مندر ہے اور مستقبل میں بھی وہاں مندر کی تعمیر ہوگی۔ ایسے میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کا الزام بے بنیاد ہے۔ اس کے باوجود اگر عدالت مجرم مانتی ہے اور سزا دیتی ہے تو یہ سزا بھلے ہی سزائے موت ہی کیوں نہ ہو، ہمیں خوشی سے تسلیم ہے۔
ویدانتی نے کہا کہ شری رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے لیے حال ہی میں جو کھدائی کرائی گئی ہے، اس میں بھی وہاں مندر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ مہاراجا وکرمادتیہ کے دور کے بنے مندر کی تصدیق کے طور پر کسوٹی کے کھمبے ملے ہیں۔ ایودھیا کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ وہاں مندر ہی تھی۔
ایک اور سوال کے جواب میں ویدانتی نے کہا کہ ایودھیا میں بھگوان رام کے پیدائشی مقام پر شاندار مندر کی تعمیر تیز ہو چکی ہے۔ وہاں ایک شاندار مندر کی تعمیر ہونے جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ وہاں دنیا کا سب سے بڑا مندر ہوگا۔
ایسے میں میں نے حکومت سے کہا ہے کہ شری رام جنم بھومی مقام پر بننے والے مندر کو 1050 فٹ سے بھی اونچا بنائیں، جس سے وہ دنیا کا سب سے اونچا مندر مانا جائے۔
مندر کی تعمیر کے لیے کوئی تنازع نہیں ہے بلکہ ایک بات چیت ہو رہی ہے، جو مندر کی شان و شوکت کے لیے ضروری ہے۔