لکھنؤ: ریاست اترپردیش مدرسہ بورڈ نے مجموعی طور 31 ترقیم مراکز بنائے ہیں جہاں پر کاپیاں چیک ہوں گی۔ لیکن بورڈ اس عمل پر کئی تنظیموں نے حکومت کو خط لکھ کر سنگین سوال کئے اور مطالبہ کیا ہے کہ بورڈ اپنے فیصلے کو تبدیل کرے۔ مدرسہ ٹیچرس یونین کے صدر و کنوینر نے خط میں الزام عائد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے چئیرمین افتخار احمد جاوید نے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من مانے طریقے سے ترقیم مراکز بنائے ہیں اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر رقم لیا گیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ بورڈ کے چئیرمین نے مغربی اترپردیش کے مدارس کو ترقیم مرکز نہیں بنایا ہے انہیں نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے بدایوں ضلع کے شمش العلوم گھنٹہ گھر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مدرسہ کو ترقیم مرکز بنایا گیا ہے جبکہ وہاں پر کل 7 مدرس تعلیم دے رہے ہیں اور 6 اضلاع کی کاپیاں بھیجی گئیں ہیں ایسے میں صاف و شفاف طریقے سے کیسے کاپیاں چیک ہوں گی؟
اس کے علاوہ لکھنو میں چار ترقیم مراکز بنایا ہے جس میں تقریبا 15 اضلاع کی کاپیاں چیک ہوں گی جبکہ ضلع میں کل اساتذہ کی تعداد تقریبا 125 ہے ایسے میں سوال ہے کہ اتنے کم اسٹاف اتنے اضلاع کی کاپیاں کیسے چیک کریں گے؟ وہیں بنارس اور مئو میں تین تین ترقیم مراکز بنائے گئے جبکہ اعظم گڑھ چندولی میں کوئی بھی ترقیم مراکز نہیں ہیں ایسے میں بورڑ کی منشا پر سوال اٹھ رہا ہے کہ ایسا کرنے کی کیا مجبوری آگئی کہ کسی ضلع میں تین سے چار ترقیم مراکز بنائے گئے ہیں جبکہ کسی ضلاع کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:World Tobacco Day تمباکو نوشی مخالف عالمی دن پر مختلف پروگرامز کا انعقاد
بورڈ کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ای ٹی وی بھارت سے بتایا کہ امتحان سے قبل کابینی وزیر دھرم پال سنگھ نے ایک اہم میٹنگ کی تھی جس میں بورڈ کے چئیرمین افتخار احمد جاوید اقلیتی امور کے وزیر مملکت دانش ازاد انصاری اور بورڈ کے سبھی اراکین کو کسی بھی امتحان مرکز کے جائزہ لینے جانے پر سخت پابندی عائد کی تھی اور سبھی کو زبانی طور پر منع کیا انہوں نے اس کے لیے اڑن دستہ بنایا تھا اس کے باوجود مدرسہ بورڈ کے چئیرمین نے کئی امتحان مراکز کا دورہ کیا۔