بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ راحت اندوری کے دنیا سے رخصت ہونے کا شدید رنج و غم ہے ان کے جانے سے اردو شاعری میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ راحت اندوری نے وقت ابن الوقت یعنی اقتدار اور حکومت سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، یہ ایک بہت بڑا اختصاص ان کے اندر تھا وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے، حکومت جن کی بھی رہی انہوں نے حکومت کے ان رویوں کو جس معاشرہ یا سماج لہو لہان ہوتا ہے، اس پر ہمیشہ انہوں نے وار کیا اور بے باک انداز میں عوامی نظریات کو پیش کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بلا شبہ وہ عوامی شاعر تھے اور مشاعروں کے بے تاج بادشاہ تھے۔ وہ ہندی داں طبقے میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنا اردو میں تھے۔
پروفیسر آفاقی نے کہا کی المیہ یہ ہے کہ اب اردو داں حضرات راحت اندوری پر مضامین لکھیں گے اور ان کی خدمات کو یاد کیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ پہلے ہی سے ہی عوامی شاعر عوامی ادب اور مشاعروں میں اہم مقام رکھنے والی شخصیات کی خدمات کو یاد کرنا چاہیے اور ان کو ادبی دنیاں میں جگہ دینا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ عصر حاضر میں خاص طور سے مشاعروں میں بیشتر گویا ہوتے ہیں اوربعض تک بندی کرتے ہیں لیکن راحت اندوری کا مقام کافی بلند تھا وہ ایک معیاری شاعری کرتے تھے اور عوام کے دلوں پر راج کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ راحت اندوری کی شاعری مشاعروں والی ہوا کرتی تھی یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری اور اردو ادب میں ان کو خاص مقام نہیں ملا لیکن ان کی شاعری میں جو معنویت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔