معروف شاعر راحت اندوری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خاص مشاعروں اور علی گڑھ شہر کے مشاعروں میں اکثر شریک ہوتے تھے۔
علی گڑھ میں بھی ان کے چاہنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو ان کے انتقال سے غمزدہ ہے۔ راحت اندوری کے انتقال سے جو خلا ہوئی ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتی۔
اے ایم یو شعبہ اردو کے پروفیسر سراج اجملی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ 'یہ فنکار یا جو قلمکار ہوتے ہیں ان کا جانا معاشر ے کے لئے بہت بڑا حادثہ ہوتا ہے اور جو جگہ ان کی ہوتی ہے وہ کبھی پر نہیں ہو پاتی وہ خلا تو رہ ہی جاتا ہے، اس لیے کہ ہر فرد واحد کی اپنی شناخت ہوتی ہے، وہ معاشرے کی زبان بھی ہوتا ہے، وہ معاشرے کا ذہن بھی ہوتا ہے، معاشرے کا ترجمان بھی ہوتا ہے تو اس کا اپنا ایک مرتبہ ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا 'جو ہمارا ادبی مشاعرہ ہے وہ اس کے ایک نمایاں اور منفرد فنکار تھے۔ راحت اندوری مرحوم کی اللہ مغفرت کرے'۔
سراج اجملی نے مزید کہا کہ 'مشاعرے میں جس طرح سے وہ موجود ہوتے تھے تو ہندوستان کا ہر شہری سمجھتا تھا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں بالکل۔ ان کا ایک شعر بڑا مشہور ہوا تھا۔۔
میری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ کوئی دیوار اٹھے
میرے بھائی میرے حصے کی زمیں تو رکھ لے
یہ غزل بہت مشہور ہوئی تھی اور اس طرح کے جذبات اس طرح کے مضامین کو اپنے خاص انداز میں مشاعرے میں عوام میں اور سامعین کے سامنے پیش کرنا ان کا امتیازی نشان تھا۔