پروفیسر عرفان حبیب نے کہا جب ہمارا ملک آزاد ہوا اس وقت گاندھی جی کلکتہ میں تھے۔ تندولکر نام کے ایک شخص جو ان کے ساتھیوں میں سے تھے انہوں نے ان سے کہا ایک شخص کو ان سے تعویذ چاہیے تو گاندھی جی نے کہا میں تعویذ دیتا ہوں انہوں نے تعویذ یہ دیا جب کوئی کام کرو تو یہ دیکھو جو غریب آدمی ہے اور بے مددگار ہے اس کو اس سے فائدہ ہوگا یا تکلیف ہوگی۔
آج جب سی اے اے پاس ہوا شہریوں کے اوپر دو ڈاؤن ہونگے گنتی کے تو اس سے جو سب سے غریب ہے اور بے مددگار ہے اسی پر سب سے زیادہ ظلم ہوگا۔ وہ یتیم ہو سکتا ہے اس کے ماں باپ کہیں مر گئے، گناہ یہ ہوا کہ اس کا نام مسلمان دے دیا اس نے پڑھا نہیں۔ پولیس اس سے کہے گی پاکستان جاؤ جیسے ابھی کہہ رہی ہے تو یہ صرف مسلمانوں پر حملہ نہیں یہ غریبوں پر حملہ ہے۔
1922 میں سوال کرنے تین معافیاں مانگ کر ہندوتوا کا قصہ شروع کیا۔
لفظ ہندی لفظ ہندو یہ دونوں عربی کے لفظ ہیں اگر الہ آباد کا نام ہٹا رہے ہو تو ہندی بھی تو ہٹاؤ، ہندو بھی ہٹاؤ یہ ان کی جاہلیت کا ثبوت ہے ان کو یہ نہیں معلوم ہندو بھی عربی لفظ ہےاس میں توا اپنے ضرور جوڑ دیا۔
کسی سنسکرت کتاب میں ہندو کا لفظ نہیں ہے تیرویں شاداب دی سے پہلے کوئی نہیں کہیں نہیں۔
ساورکر نے یہ ہندوتوا کا قصہ شروع کیا انگریزوں نے کہا اگر تم ہمارے خلاف کوئی بات کرو گے تو ہم تمہیں دوبارہ جیل میں ڈال دیں گے۔ 1922 کے بعد ایک لفظ انگریزوں کے خلاف نہیں کہا۔
ٹو نیشن تھیوری ساورکر جی کی ہی لائی ہوئی ہے اور گوڈسے، ساورکر کے بالکل دوست تھے۔
گوڈسےنے گاندھی جی کے قتل میں ہاتھ لیا تو اس شخص پر جس پر اتنا بڑا الزام ہے اور اگر اپیل کی جاتی تو یقینا اس کو سزا ہو جاتی اس کو یہ اپنا نیتا اور رہنما مان رہے ہیں اور شاید بھارت رتن ڈکلیئر کر دیں۔
امت شاہ کانام بھی شاہ عربی لفظ ہے یہ بھی اپنا نام بدلے تو اچھا رہے گا۔ مودی اور شاہ جب تقریر کرتے ہیں تو مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں وہ دیمک کہتے ہیں۔
مودی جی نے پتا نہیں کہاں سے تاریخ پڑھی ہے وہ کہتے ہیں بھارت کے ہسٹورین صرف راجاؤں کی بات کرتے ہیں۔ مودی جی کتابیں پڑھنا شروع کرے تو پتہ چلے گا کہ کتنی جہالیت ہے ان میں۔
دوستوں میں سمجھتا ہوں جو انہوں نے سی اے اے کیا ہے وہ نہایت بھیانک قانون ہے یہ چاہے کتنا ہی کہے لیکن اس کا اثر جو سب سے غریب ترین مسلمان ہے ان پر ہوگا اور لوگوں پر بھی ہوگا، رشوت بہت چلے گی اور اس ملک کی جتنی بدنامی ہورہی ہے وہ تو ہو ہی رہی ہے۔
تو پھر سے انسے کہتا ہوں حالانکہ کہنا بیکار ہے کہ گاندھی جی کا عینک جو غسلخانوں پر دکھانا بیکار ہے۔ گاندھی جی نے جو بات کہی ہے ان کو مانو لیکن جو لوگ گوڈسے سے کو دیش بھکت کہتے ہیں ظاہر ہے وہ گاندھی جی کی بات کیوں کہیں گے لیکن بھارت کے لوگ سنیں گے۔
پنڈت نہرو پر ہر وقت چھینٹے اڑاتے ہیں، کیوں اڑاتے ہیں ان کی رائٹنگ میں ایک بھی جگہ کوئی ایسا بیان نہیں ہے جسے یہ استعمال کرے۔