ریاست اترپردیش کے مرادآباد کی رہنے والی رچی چترویدی بچپن سے ہی پولیو سے متاثر ہیں۔ بیساکھیوں کے سہارے زندگی کا سفر طے کر رہی رچی بلند سوچ کی خاتون ہیں اور اپنے جیسے لوگوں کو نئی راہ دکھا رہی ہیں۔
انسان کے دل میں کچھ کرنے کا جذبہ ہو تو کوئی راہ مشکل نہیں ہوتی۔ جسمانی معذوری زندگی کے سفر میں امتحان تو سخت لیتی ہے لیکن خود پر بھروسہ ہو تو منزل مقصود تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ جی ہاں کچھ ایسی ہی داستاں ہے مرادآباد کی رہنے والی رچی چترویدی کی۔ بچپن میں پولیو کی بیماری کے سبب مشکل میں آئی رچی آج اپنے پیروں پر کھڑی ہیں۔
ضلع کے سیول لائن تھانہ علاقے میں رہنے والی رچی ہر روز اپنی زندگی اسی طرح شروع کرتی ہیں، جیسےایک صحت مند انسان اپنی زندگی کی شروعات کرتا ہے۔
ریلوے کالونی میں رہنے والی رچی معذور ہیں اور بیساکھیوں کے سہارے ہی چل پاتی ہیں۔ رچی پڑھائی میں ہمیشہ اول رہی اور ایم اے کے ساتھ ایل ایل بی کی پڑھائی مکمل کر چکی ہیں۔
محض ڈھائی برس کی عمرمیں رچی کو پولیو وائرس کے چلتے جسمانی معذوری کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بیماری کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا اور رچی نے اپنے زندگی کا ایک مقصد رکھا۔
گھر والوں کی مدد سے رچی دھیرے۔ دھیرے اپنی منزل کی جانب گامزن ہو گئیں اور آج وہ سماجی خدمت سے لے کر کاروبار تک اپنی شناخت بنا رہی ہیں۔
ریلوے کالونی میں رچی نے اپنے اہل خانہ کی مدد سے ایک بوٹیک کھولا ہے، جس کے ذریعے وہ عام لوگوں کو پیغام دیتی نظر آتی ہیں۔ ہر روز صبح سے شام تک بوٹیک پر بیٹھنے کے ساتھ ہی رچی مستقبل میں معذوروں کے لوگوں کے لیے ایک اسکول کھولنے کی سوچ رہی ہیں۔
رچی کے مطابق جسمانی معذوری کے سامنے ہار تسلیم کر لینے سے زندگی میں مایوسی ہو سکتی ہے، لھذا انہوں نے خود کو اسی طور پر تسلیم کیا جیسے وہ تھیں۔
رچی کو اس کے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے اہل خانہ نے بھی ہر ممکنہ مدد کی۔ رچی کے چاچا کے مطابق انہوں نے کبھی بھی رچی کو اکیلے ہونے کا احساس نہیں کرایا اور ہر وقت یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنی زندگی اپنے طریقے سے جی سکتی ہے۔
رچی کی زندگی ان ہزاروں افراد کے لیے نصیحت آمیز ہے جو جسمانی معذوری کے باعث ہار مان لیتے ہیں۔ خود پر بھروسہ کر رچی نے ثابت کر دیا کہ مضبوط ارادوں اورحوصلوں کے ساتھ ارادہ کر لیا جائے تو ہر راہ آسان ہو جاتی ہے۔