جماعت اسلامی کے بانی اور ممتاز عالم دین مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی کتابوں اور مضامین کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیمی نصاب سے ہٹانے جانے پر ریاست اترپردیش کے ضلع رامپور کے معروف شاعر اظہر عنایتی رامپوری نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مسلمانوں کی تاریخ کو اور ان کی علمی شخصیات کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مولانا مودودی کی کتابوں کو نصاب تعلیم سے ہٹانا اسی کوشش کا شاخسانہ ہے۔
Poet Azhar Inayati's reaction to the removal of Maududi's books from the syllabus
20 ویں صدی کے ممتاز عالم دین اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کی کتابوں اور مضامین کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیمی نصاب سے ہٹانے جانے پر عالمی شہرت یافتہ شاعر اظہر عنایتی رامپوری نے کہا کہ مولانا مودودی عالم اسلام کے عظیم اسکالر اور شخصیت گزرے ہیں، انہوں کا دین اسلام کے لئے و امت مسلمہ کے لئے نمایاں خدمات انجام دیئے ہیں، جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ انہوں نے اپنی صدی کے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ذہنوں کو، ان کے افکار و خیالات کو متاثر کیا وہ اسی لئے بڑی شخصیت تھے۔
اظہر عنایتی نے کہا کہ مولانا مودودی کی تحریروں کا اثر آج بھی مغرب پر دیکھا جا سکتا،اور مشرق کے دانشوروں کے افکار میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ مولانا کی کوئی ایک کتاب یا کسی بھی مضمون میں ایسی باتیں نہیں لکھی ہیں جوملک کے خلاف ہو، یا جہاد کی ایسی تلقین کی گئی ہو کہ آپ دوسری قومو کو نقصان پہنچائیں۔
اظہر عنایتی نے کہا کہ مولانا مودودی جب تک ہندوستان میں رہے تو یہاں بھی انہوں نے اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے پر زور دیا، جب وہ پاکستان چلے گئے تو وہاں پر بھی انہوں بہت صاف ستھری زندگی گزاری، انہوں نے کہا کہ تعلیمی نصاب سے ان کتابوں کو نہیں ہٹایا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے ملک کے کچھ ماہرین تعلیم اور دانشوروں کا خیال ہے کہ بھارتی یونیورسٹیز میں مولانا سید ابواالا علی مودودی کی ان کتابوں پر پابندی لگائی جائے جس میں جہادی متن موجود ہیں۔ اطلاع کے مطابق اس سلسلہ میں تعلیمی شعبۂ سے وابستہ 22 لوگوں وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ مالی اعانت والی یونیورسٹیز مثلاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد میں داخل نصاب مولانا مودودی کی کتابوں پر پابندی لگائی جائے، ان کا دعویٰ کہ مولانا کی کتابوں میں نفرت انگیز مواد موجود ہیں۔