1886 میں سرسید احمد خان نے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی۔ نواب سلطان جہاں بیگم کی حمایت حاصل ہونے کے بعد 27 فروری 1914 کو وہ علیگڑھ تشریف لائیں اور اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا، جس کا نام "سلطان جہاں منزل" رکھا گیا جس کا افتتاح 1915 میں ہوا۔
آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس بنیادی طور پر مسلم تعلیم کے ساتھ ہی تشویش کا باعث تھی۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس بھارتی مسلمان دانشوران کے لیے ایک پلیٹ فارم بن گیا تاکہ بھارتی مسلمانوں کو تعلیم اور خاص طور پر جدید اور مغربی تعلیم کے فروغ کے لیے متحرک کیا جاسکے اور مغربی اور جدید تعلیم کے بارے میں اپنے شبہات اور غلط فہمیوں کو ختم کیا جا سکے۔
سلیم چوہدری اے ایم یو کے سابق طالبہ علم نے بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی چانسلر بیگم سلطان جہاں جو نواب تھی بھوپال کی، ان کا بہت بڑا تعاون رہا ہے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں جو مسلم بچوں کی تعلیم کے لیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ اب تو یہ عمارت بدحالی کا شکار ہے، پہلے اس میں ہال تھا، لائبریری تھی، ایک بڑی تصویر تھی، آگے بڑا میدان تھا، دفتر بھی تھا اور یہیں سے امداد بھی ہوا کرتی تھی، جو بچوں کے لیے تعلیمی فنڈ بھی دیا کرتے تھے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس تاریخی عمارت کی بدحالی کا ذمہ دار وہ ایسوسیشن ہے جو اسے خاص طور سے چلا رہی ہے۔ جس کا صرف ٹارگٹ یہ ہی ہے کہ کسی بھی صورت سے اس کے ممبر بن جائیں تاکہ اے ایم یو کورٹ کے ممبر بن جائے اور ایگزیکٹو کے اندر ہم پہنچ جائیں۔ اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
سلیم چوہدری نے مزید بتایا کہ اب انہوں نے کچھ دنوں کے لیے عمارت کوچنگ کے لیے دی تھی جو مفت ہونا چاہیے تھی کوچنگ کیوں کہ یہ مسلم کے فائدے کے لیے کھولی گئی تھی۔
کوچنگ والے اس کا بھی کچھ نہیں دیتے شاید اور ان کا غیر مجاز قبضہ ہے جو کہ غلط ہے، کوئی ہمدردی نہیں ہے کسی سے اور اس عمارت کی بدحالی کو کیسے دور کیا جائے یہ آپ ہی لوگ بہتر کر سکتے ہیں، اگر معاشرہ اس کے اندر داخل اندازی کرے تو شاید اس کا کوئی حل نکل آئے۔
مزید پڑھیں:
جونپور: فیروز شاہ تغلق قلعہ کی مسجد، مشرقی طرزِ تعمیر کا شاہکار
تاریخی عمارت 'سلطان جہاں منزل' آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی نگرانی میں ہے، اس کا دفتر بھی اس کے اندر موجود ہے۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے پانچ ممبر اے ایم یو کورٹ کے ممبر بھی ہوتے ہیں۔